زمانہ اور تمہارا شہر اس آزمائش میں مبتلا ہو گئے ہیں ۔ اسی طرح اپنے عاملوں میں سے تمہیں اس آزمائش کا سامنا ہے۔ انہی مواقع پر یا تو لوگ آزاد ہوتے ہیں یا پھر غلام بنا لیے جاتے ہیں ۔‘‘
لیکن ابن زیاد نے یزید کی اس فہمائش کی مطلق پروا نہ کی اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر کے ان کا سر یزید کے پاس بھیج دیا۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’میں کہتا ہوں کہ صحیح یہ ہے کہ ابن زیاد نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر شام نہ بھیجا تھا۔ ایک روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ یزید نے ابن زیاد کو خط میں لکھ بھیجا کہ ’’مجھے اس بات کی خبر پہنچی ہے کہ حسین( رضی اللہ عنہ ) عراق کی طرف روانہ ہو گئے ہیں ۔ ان پر نگران اور مسلح افراد مقرر کر دو، ان پر پہرا رکھو، کوئی گمان ہو تو قید میں ڈال دینا اور کوئی تہمت ملے تو دار و گیر کرنا البتہ ان کے خون سے ہاتھ رنگنے سے سخت گریز کرنا، ہاں جو تم سے قتال کرے اسے قتل کر دینا اور مجھے پل پل کی خبر بھیجتے رہنا۔ و السلام!‘‘ [1]
لیکن ابن مرجانہ فارسیہ نے یزید کے خط کی ہدایات کی مطلق پروا نہ کی اور ان سب فہمائشوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان سے بھی قتال کیا جنہوں نے قتال میں پہل نہ کی تھی اور انہوں نے تو صلح کی پیش کش کی تھی۔ گویا اس کی رگوں میں ٹھاٹھیں مارتے ایرانی مجوسی خون نے اس کی بصیرت و بصارت دونوں کو اندھا کر دیا تھا، اور اسے حسد و کینہ کی اندھی کھائی میں جا گرایا۔ چنانچہ ابن مرجانہ فارسیہ نے صلح کی پیش کش کو ٹھکرا
کر مجوسی نسل کی لاج رکھتے ہوئے شر کو اختیار کیا اور ان اہل فتنہ کی معاونت و مساعدت پر کمربستہ ہو گیا جنہوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو فتنہ کا جال بن کر اور ان کی جائے قرار سے نکال کر غدار کوفیوں کے آگے لا کھڑا کیا۔ جبکہ ابن زیاد ان کی تلواروں اور آراء کے ہم نوا تھا۔
کیا یہ وہی لوگ نہیں تھے جو جناب امیر المومنین سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور انہوں نے مسلمانوں میں فتنہ کا بیج بونے، امن و سلامتی کو غارت کرنے اور باہمی اتفاق و اتحاد کو جلا کر خاکستر کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا تھا اور انہیں جب بھی کسی نئے فتنہ کی بنیادیں رکھنے کا موقع ملا، انہوں نے وہ موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ چنانچہ ان لوگوں نے کمال چابک دستی سے کام لیتے ہوئے ابن زیاد کی مجوسی رگ کو چھیڑا اور اسے صلح و سلامتی کی راہ سے بڑی خوبی کے ساتھ موڑ لیا حتیٰ کہ اسے خود اپنے امیر اور خلیفہ کی رائے کے خلاف چلنے پر آمادہ کر لیا۔ چنانچہ ان حضرات کے بھڑکانے اور اکسانے پر ابن مرجانہ نے یزید کو کسی بات
|