سے آگاہ کرنا گوارا نہ کیا اور کوفیوں کی انگیخت پر حسینی قافلہ کو تلواروں پر رکھ لیا اور قتل حسین رضی اللہ عنہ کے رسوائے زمانہ جرم کا ارتکاب کر لیا۔ اسی بات کو تاکید کے ساتھ یزید نے جناب علی بن حسین بن علی بن ابی طالب رحمہ اللہ کے سامنے بیان کیا تھا کہ اسے حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کی سازش کا مطلق علم نہ تھا اور اسے یہ روح فرسا خبر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل ہو جانے کے بعد ملی تھی۔[1]
حالات و واقعات کا اگر استقرائی اور معروضی جائزہ لیا جائے تو یہی حقیقت الم نشرح ہو کر سامنے آتی ہے۔ پھر ان سب کے ساتھ ساتھ بنو امیہ کے حلم و بردباری کو بھی ہر وقت سامنے رکھیے جو سب قبائل عرب میں ان کا طرۂ امتیاز اور امتیازی وصف تھا جس کی شہادت جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی دیتے ہیں ۔ چنانچہ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ملنے شام گئے تو ان کے آنے کی خبر سن کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے یزید کو حکم دیا کہ وہ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جا کر حاضر ہو۔ چنانچہ یزید سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ان کی رہائش گاہ پر حاضر ہوا۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یزید کو خوش آمدید کہا اور خوب گفتگو رہی۔ جب یزید جانے لگا تو سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یزید سے ارشاد فرمایا:
’’جب بنو حرب (یعنی بنو امیہ) نہ رہیں گے تو سمجھ لینا کہ لوگوں کے علماء رخصت ہو گئے۔‘‘
پھر یہ شعر پڑھا:
مغاض عن العوراء لا ینطقوا بہا
و اصل وراثات الحلوم الاوائل[2]
’’برائیوں سے چشم پوشی کرنے والے اور ان کو دیکھ کر بھی ان پر لب کشائی نہ کرنے والے، اور بردباروں کی پہلی وراثتوں کے اصل وارث۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے:
’’جب بنو امیہ ختم ہو جائیں گے تو سمجھ لینا کہ لوگوں میں حلم و بردباری جاتی رہی ہے۔‘‘[3]
پھر جب ان سب امور کے ساتھ خود سیّدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی یزید کو جناب حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس تاکیدی وصیت کو بھی ملا لیا جائے کہ جناب حسین رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کا ازحد خیال رکھنا اور ان کے ساتھ حسن معاملہ کرنا، چنانچہ جب یزید کو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کر دئیے جانے کی خبر پہنچی تو بے اختیار رونے لگا، کہ یہ جملہ امور اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ جناب حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کر دینا یا کروا دینا یزید کی اس
|