مطالبہ کیا کہ آپ گرفتاری دے دیں ۔ آپ نے گرفتاری دے دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر ان ظالموں نے آپ سے قتال کیا حتیٰ کہ آپ ظلماً شہید کر دئیے گئے۔ جب یزید کو قتل حسین رضی اللہ عنہ کی خبر پہنچی تو وہ غم زدہ ہو گیا اور حرم میں جا کر رونے لگا۔ یزید نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے آل بیت اور حرم میں سے کسی کو ہرگز بھی قیدی نہ بنایا بلکہ ان کا بے حد اکرام و اعزاز کیا اور تحائف سے نواز کر ان کے شہر واپس بھیج دیا۔‘‘[1]
آلِ حسین رضی اللہ عنہ کے قیدی بنائے جانے کے بارے میں بیان کی جانے والی باتیں بھی انہی قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ کی گھڑی ہوئی ہیں جو آج تک اپنے اس بدترین جرم کے آثار کو مٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ، جس کے شواہد پکار پکار کر اپنے مجرموں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ، بلاشبہ یہ وہی لوگ ہیں جو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اور آل بیت رضی اللہ عنہم کی محبت کے دعوے کی آڑ میں اپنے آپ کو چھپانے کی نامشکور سعی میں لگے ہیں ۔ جبکہ دوسری طرف ان کا وظیفۂ حیات صرف اور صرف کتاب و سنت کی تعلیمات کو نابود کرنا اور جاہلی رسموں کی آڑ میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض و نفرت کا اظہار اور اس کی اشاعت کرنا ہے۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ دو ٹوک فرماتے ہیں :
’’جن روایات میں ان ناشائستہ باتوں کا ذکر آتا ہے کہ آل بیت رسول کی خواتین کی اہانت کی گئی، انہیں قیدی بنا کر شام لے جایا گیا اور وہاں ان کے ساتھ ذلت آمیز رویہ روا رکھا گیا، بلاشبہ یہ جملہ روایات باطل اور ساقط الاعتبار ہیں ۔ بنی امیہ تو بنی ہاشم کی بے پناہ تعظیم و توقیر کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حجاج بن یوسف نے سیّدہ فاطمہ بنت عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کو اپنی زوجیت میں لیا تو عبدالملک بن مروان کو اس سے بے حد گرانی ہوئی (کہ حجاج سیّدہ محترمہ کے لائق نہ تھا) اس لیے عبدالملک نے حجاج کو ان سے علیحدگی اختیار کر لینے کا اور طلاق دے دینے کا فرمان جاری کیا۔ معلوم ہوا کہ بنی امیہ بنی ہاشم کا اس قدر اکرام و احترام کیا کرتے تھے۔ یہی حقیقت ہے کہ کسی ہاشمی خاتون کو ہرگز بھی قیدی نہ بنایا گیا تھا۔‘‘
آگے لکھتے ہیں :
’’متعدد لوگوں نے یہ بات نقل کی ہے کہ یزید نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کر دینے کا حکم نہ دیا تھا اور نہ اسے اس بات سے کوئی غرض تھی بلکہ وہ تو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا احترام اور اکرام کرنا چاہتا تھا جیسا کہ خود سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی یزید کو اس بات کا تاکیدی حکم دیا تھا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ
|