بھی ویسے ہی حالات میں گھر کر قتل ہوا جن حالات میں گھیر کر اس نے جناب حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کروایا تھا۔ چنانچہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں :
’’رب کا فیصلہ جاری ہوا۔ چنانچہ عبیداللہ بن زیاد ۶۷ ہجری عاشوراء کے دن قتل کیا گیا۔ اسے ابراہیم بن اشتر نے جنگ میں قتل کیا۔ اس کا سرقلم کر کے مختار بن ابی عبید کے پاس بھیج دیا۔ اس نے ابن مرجانہ کا سر ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے پاس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے وہ سر علی بن حسین امام زین العابدین رحمہ اللہ کے پاس بھیج دیا۔‘‘[1]
جان لیجیے کہ کسی معتبر روایت سے اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ یزید نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کر دینے کا حکم دیا ہو اس باب میں مروی جملہ روایات کوفیوں کی ساختہ پرداختہ اور ان کی افترا پردازیوں کا شاخسانہ ہیں ۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت کے بغیر ایک زمانہ گزار دیا مگر کسی نے بھی آپ سے کسی قسم کا تعرض نہ کیا۔ البتہ جناب حسین رضی اللہ عنہ سے جب یزید کی بیعت کا مطالبہ کیا گیا تو آپ ہجرت کر کے مکہ چلے آئے تھے اور اگر آپ کوفیوں کے مکر پر متنبہ ہو جاتے تو شاید تاریخ اسلام میں ایسا درد ناک واقعہ پیش ہی نہ آتا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اہل نقل و روایت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یزید نے قتل حسین رضی اللہ عنہ کا حکم نہ دیا تھا۔ البتہ ابن زیاد کو یہ لکھ بھیجا تھا کہ وہ انہیں ولایت عراق سے روک دے۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا یہ گمان تھا کہ اہل عراق ان کی نصرت کریں گے اور جیسا کہ انہوں نے اپنے خطوط میں لکھا تھا اس پر قائم رہ کر آپ کے ساتھ وفا کریں گے۔ پس سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے چچا زاد مسلم بن عقیل کو کوفیوں کے پاس بھیجا۔ جب کوفیوں نے انہیں گھیر کر بے بس کر کے قتل کر دیا اور آپ کے ساتھ غداری کی اور بجائے آپ کی بیعت کرنے کے ابن زیاد کی بیعت کر لی تو آپ نے لوٹ جانے کا ارادہ کر لیا لیکن اس ظالم فوجی دستے نے آپ کا راستہ روک لیا۔ آپ نے ان تین باتوں میں سے ایک کے مان لینے کا مطالبہ کیا:
یا تو مجھے یزید کے پاس جانے دو،
یا کسی سرحد پر جا کر جہاد کرنے دو،
یا پھر مجھے اپنے شہر لوٹ جانے دو،
لیکن ان لوگوں نے آپ کو ان تینوں باتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا موقعہ نہ دیا اور
|