کون سی بات روک سکتی ہے جبکہ حضرت یحییٰ بن زکریا علیہما السلام کا سر قلم کر کے بنی اسرائیل کی ایک رنڈی کی طرف بھیجا گیا تھا۔‘‘[1]
غدار اور دغا باز و جفاکار یہود بنی اسرائیل کے ہاتھوں رب تعالیٰ کے متعدد پیغمبر شہید ہوئے۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی طرح حضرت زکریا علیہ السلام بھی قتل کیے گئے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قُلْ قَدْ جَآئَ کُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِیْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ بِالَّذِیْ قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوْہُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo﴾ (آل عمران: ۱۸۳)
’’کہہ دے بے شک مجھ سے پہلے کئی رسول تمھارے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے اور وہ چیز لے کر بھی جو تم نے کہی ہے، پھر تم نے انھیں کیوں قتل کیا، اگر تم سچے تھے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿سَنَکْتُبُ مَا قَالُوْا وَ قَتْلَہُمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّ نَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِo﴾ (آل عمران: ۱۸۱)
’’ہم ضرور لکھیں گے جو انہوں نے کہا اور ان کا نبیوں کو کسی حق کے بغیر قتل کرنا بھی اور ہم کہیں گے جلنے کا عذاب چکھو۔‘‘
محبان حسین رضی اللہ عنہ کی قتل حسین رضی اللہ عنہ کے حادثۂ فاجعہ پر خود اپنی غم گساری اور تعزیت کے لیے یہی امر بس ہے کہ رب تعالیٰ نے قاتلان حسین رضی اللہ عنہ سے بدترین انتقام لیا۔ یہ اہل کوفہ اور ان کے ہم نوا تھے جو کتاب و سنت سے سب سے زیادہ دور، کتاب و سنت کی صحت پر سب سے زیادہ شک کرنے والے اور سلف صالحین سے جن میں سرفہرست حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ، ان سے سب سے زیادہ بغض، نفرت اور کینہ رکھنے والے ہیں ، ان کا حسینی عقائد سے کوئی تعلق واسطہ نہیں , نہ انہیں امت حسین رضی اللہ عنہ سے ہی کوئی سروکار ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ بجائے صلحاء کے مشاہد و مزارات پر جانے کے ابو لؤلؤہ فیروز دیلمی (قاتل حضرت عمر رضی اللہ عنہ )کی قبر کی طرف بھاگتے ہیں ۔ ’’تو کجا من کجا‘‘
کوفی رافضی قاتلان حسین رضی اللہ عنہ سے رب تعالیٰ کی قدرت و مشیت نے کس طرح انتقام لیا؟ ذیل میں اس کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے:
٭ … عبیداللہ بن مرجانہ فارسیہ جو اعدائے صحابہ کا مہرہ، ان کی سواری اور ان کا اسلحہ تھا، جس نے ان نامرادوں کی باتیں سنیں ، ان کا مشورہ مانا اور ان کی نامسعود مراد کو پورا کرنے کے لیے سبط رسول کو قتل کیا، وہ
|