Maktaba Wahhabi

280 - 441
اس موقعہ پر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جناب حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کو کسی فرد واحد نے بھی یزید کی بیعت کرنے پر مجبور نہ کیا تھا اور جب تک ان کوفی رافضیوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو فتنہ کی آگ میں ڈال نہ دیا تھا کسی نے بھی جناب حسین رضی اللہ عنہ کو میلی نگاہ سے دیکھا تک نہ تھا۔ اس مرحلہ میں جناب حسین رضی اللہ عنہ کے پاس ایسی کوئی ظاہر و باہر وجہ جواز بھی نہ تھی جو یہ بتلاتی کہ امت کی مصلحت خروج حسین رضی اللہ عنہ میں ہے۔ اگر جناب حسین رضی اللہ عنہ ان دغا باز،خائن اور مکار و عیار رافضی کوفیوں کے کہنے پر خروج نہ فرماتے تو ان بدبختوں کو جناب حسین رضی اللہ عنہ سے غداری کر کے انہیں شہید کرنے کا موقعہ ہی ہاتھ میں نہ آتا اور نہ امت مسلمہ کو یہ اندوہناک، جگر پاش اور دل خراش حادثۂ فاجعہ دیکھنے کو ملتا۔ لیکن ہوتا وہی ہے جو رب کی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے اور اللہ کی تقدیر نافذ ہو کر رہتی ہے۔ اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں کہ جناب حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دل فگار واقعہ امت مسلمہ کے لیے بے پناہ غم و اندوہ کا باعث ہے اور اس دل سوز واقعہ نے امت سنت و الجماعت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا المیہ حضرات خلفائے راشدین جناب فاروق اعظم، جناب عثمان غنی اور جناب علی بن ابی طالب(رضی اللہ عنہم اجمعین) کی شہادتوں کے المیوں سے ہرگز بھی بڑا نہیں ۔ لیکن اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو ’’حقیقی مصیبت‘‘ امت سنت و الجماعت کی ان اسباب و وسائل اور ادوار و مراحل سے کمال غفلت ہے جن کو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اور آل بیت رسول کے پاکیزہ خونوں سے کھلواڑ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اور قتل و غارت کے اس ہوش ربا واقعہ کو رہتی دنیا تک کتاب و سنت اور اہل اسلام پر طعن کا ایک قوی ذریعہ بنا لیا گیا اور یہ خطرناک کھیل کھیلنے والے رافضی کوفی اس واقعہ کو آڑ بنا کر آج تک امت مسلمہ کے عقیدہ کی بیخ کنی کرنے، اس کے اتفاق و اتحاد کو پراگندہ کرنے اور توحید و رسالت پر اس کے یقین و اذعان کو کمزور کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ ’’بے شک قتل حسین رضی اللہ عنہ کے المیہ کا حقیقی الم ناک پہلو یہی ہے۔‘‘ یہ بات اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ’’ہماری تعزیت‘‘ یہ احرار اور ان سے قبل حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کا شیوہ ہے۔ منصور بن صفیہ اپنی والدہ سے بیان کرتے ہیں ، وہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما مسجد میں داخل ہوئے جبکہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی لاش سولی پر لٹکی تھی۔ لوگوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ ’’(حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی والدہ ماجدہ) سیّدہ اسماء رضی اللہ عنہا وہ رہیں ۔‘‘ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ان کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں وعظ و تذکیر کی اور فرمایا: ’’یہ لاش کچھ بھی نہیں ، اصل تو روحیں ہیں جو اللہ کے حضور موجود ہیں ، پس آپ صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں ۔‘‘ سیّدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’بھلا مجھے صبر کرنے سے
Flag Counter