اور دنیائے تاریخ میں جعل سازی کے اس نئے باب کا آغاز کرنا ان کی سخت مجبوری تھی تاکہ آنے والی نسلوں کو قتل حسین کے قبیح ترین جرم کے اصلی مجرموں کے چہروں کی شناختحاصل نہ ہو۔ اس لیے بے اصل و بے سند واقعات کا ایک طومار تیار کر کے کتب تاریخ کو ان سے بھر دیا گیا اور قتل حسین کے واقعہ پر شک و تلبیس اور دجل و تدلیس کی دبیز تہیں چڑھا دی گئیں ۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ان لوگوں نے (یعنی روافض نے) ذکر کیا ہے کہ جس روز سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا گیا، اس روز جس کنکری، روڑے یا پتھر کو پلٹا جاتا تھا تو نیچے سے تازہ خون نکل آتا، اس دن سورج کو گرہن لگ گیا، آسمان کا کنارا سرخ ہو گیا اور آسمان سے پتھر برسنے لگے۔ یہ سب باتیں محل نظر ہیں اور بظاہر یہ روافض کی کذب بیانی کا شاخسانہ ہے تاکہ قتل حسین کے امر کو بے حد عظیم بنا کر پیش کیا جا سکے۔ اس با ت میں کوئی شک نہیں کہ سبط رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قتل ایک عظیم واقعہ ہے لیکن جو باتیں اس قتل کی آڑ میں ان شیعہ حضرات نے جعل سازی سے گھڑ کر بیان کی ہیں وہ سراسر خلاف واقع ہے۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سے قبل خود ان کے والد ماجد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ قتل ہوئے جو بالاجماع ان سے افضل ہیں لیکن ان کی شہادت پر ایسا کوئی خلاف فطرت واقعہ پیش نہیں آیا۔ پھر ان سے پہلے امیر المومنین سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو محصور کر کے مظلومانہ قتل کر دیا گیا لیکن ایسے ماورائے عقل واقعات رونما نہ ہوئے اور ان سے بھی قبل سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مسجد و محراب کے درمیان عین نماز فجر میں شہید کر دئیے گئے، اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت واقعی مصیبت عظمیٰ تھی کہ اس سے قبل اہل اسلام کو ایسا واقعہ ہرگز بھی پیش نہ آیا تھا، لیکن اس طامۂ کبریٰ کے وقت بھی زمین و آسمان کے درمیان کوئی ایسا تغیر و انقلاب پیش نہ آیا تھا اور تو اور جناب محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ، جو سید البشر خاتم الانبیاء و المرسلین اور امام الانبیاء ہیں اور بالاجماع ذات باری تعالیٰ کے بعد جملہ مخلوقات میں سب سے افضل ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ فضیلت و بزرگی دنیا و آخرت دونوں جہانوں کے لیے ثابت ہے لیکن جس دن آپ نے اس دار فانی سے رحلت فرمائی گردش لیل و نہار میں سر مو تغیر بھی پیش نہ آیا تھا اور جو باتیں یہ شیعہ شہادت حسین کے دن کے بارے میں بیان کرتے ہیں ایسی کوئی بات کسی کے دیکھنے سننے میں نہ آئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند ارجمند سیّدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا اور اس دن اتفاقاً سورج کو گرہن بھی لگ گیا اور لوگوں میں اس بات کا چرچا ہونے لگا کہ ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات پر سورج بھی گہنا
|