Maktaba Wahhabi

259 - 441
ساتھیوں کے ساتھ مل کر محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ سے ملنے مدینہ روانہ ہوا۔ ان لوگوں کا ارادہ انہیں یزید کی بیعت توڑنے پر راضی کرنے کا تھا۔ لیکن محمد رحمہ اللہ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر ابن مطیع کہنے لگا: یزید مے خوار اور تارک صلوۃ ہے، وہ کتاب خدا کے حکم سے تجاوز کرتا ہے۔ محمد رحمہ اللہ نے یہ سن کر کہا: ’’لیکن میں نے اس میں یہ باتیں نہیں دیکھیں ، میں اس کے پاس جا کر چند دن قیام کر کے آیا ہوں میں نے اسے صوم و صلوٰۃ کا پابند، خیر کا متلاشی، علم دین کا سائل اور سنت کا پیرو دیکھا ہے۔‘‘ ابن مطیع بولا: یہ اس نے آپ کو دکھلانے کے لیے کیا تھا (وہ بناوٹ کر رہا تھا) محمد بولے:’’بھلا اس کو مجھ سے ڈرنے کی یا مجھ میں کسی بات کے طمع رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ دوسرے مے خواری وغیرہ کی جو باتیں تم لوگ ذکر کر رہے ہو، کیا یہ باتیں اس نے تمہیں بتلائی ہیں ؟ اگر تو اس نے یہ باتیں تمہیں بتلائی ہیں تو تم بھی ان باتوں میں شریک ہو (کہ کل تک اس کی بیعت پر تھے اور آج اس کی بیعت توڑتے ہو) اور اگر یہ باتیں اس نے تمہیں نہیں بتلائیں تو تمہارے لیے ایسی باتوں کی شہادت دینا جائز نہیں جن کو تم جانتے نہیں ۔‘‘ اس پر ان لوگوں نے کہا: ہم اس بارے میں حق پر ہیں اگرچہ ہم نے یہ باتیں نہیں بھی دیکھیں ۔ محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ نے تب یہ بات کہی: ’’رب تعالیٰ نے اہل شہادت کو ایسا کرنے سے روکا ہے اور میرا تمہارے اوپر کوئی اختیار نہیں ۔‘‘[1] محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ کا یہ موقف ان لوگوں کی تادیب و سرزنش اور تنبیہ و تاکید کے لیے کافی ہے جنہوں نے ایک ایسے شخص کے خلاف اتہام بازی اور تہمت طرازی کے میدان میں اپنی زبان اور قلم کو بگٹٹ گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑا رکھا ہے جس کی بیعت پر امت کی طرف سے ’’شبہ اجماع‘‘ ثابت ہے اور جب ہم محمد بن حنفیہ کے اس موقف کے ساتھ اپنے زمانہ کے ’’شیخ الصحابہ‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر اور رفیع المرتبت صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موقف کو بھی ملا لیتے ہیں جو اس اجماع کے خلاف خروج کرنے والوں کو شدت کے ساتھ ڈراتے ہیں اور انہیں گناہ گار اور اوزار و آثام کا بوجھ اٹھانے والا قرار دیتے ہیں تو اس بہتان بازی کی قباحت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہی موقف امام زین العابدین علی بن حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا بھی تھا جنہوں نے اپنے کسی قول یا فعل کے ساتھ یزید کے خلاف خروج کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا تھا اور نہ بنی عبدالمطلب میں سے ہی کسی نے ایسا کیا تھا۔ اگر مؤرخین کی بیان کردہ یہ باتیں درست ہوتی تو امام زین العابدین رحمہما اللہ سے بڑھ کر
Flag Counter