’’اے میرے بھائی! ان کوفیوں نے آپ کے والد اور آپ کے بھائی کے ساتھ جو جو غداریاں کی ہیں وہ آپ جانتے ہی ہیں ۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ کے ساتھ بھی وہی نہ ہو جو آپ سے پہلوں (یعنی آپ کے والد اور بھائی) کے ساتھ ہوا ہے۔‘‘[1]
پھر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ واقعی وہی کچھ ہوا جس کا محمد بن علی بن ابی طالب رحمہ اللہ کو ڈر تھا۔
یہی بات فرزدق شاعر نے بھی اس سوال کے جواب میں کہ ’’کوفی شیعوں کا کیا حال ہے؟‘‘ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سے کہی تھی کہ
’’ان کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں لیکن ان کی تلواریں آپ کے خلاف ہیں ۔‘‘[2]
یہ کوفی غدار تھے، قاتل علی رضی اللہ عنہ تھے، قاتل حسین رضی اللہ عنہ تھے اور یہ تو سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کو بھی اپنی طرف سے قتل کر گئے تھے، مگر قسمت نے ان کی یاوری نہ کی اور سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ بچ گئے۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو ان کے خائن و غدار ہونے کا پکا یقین ہو گیا تھا۔ ذیل کی نصوص اس کی تائید کرتی ہیں :
٭ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ ان کوفیوں سے فرماتے ہیں :
’’اگر تم لوگوں نے میرا ساتھ نہ دیا اور میرے عہد اور بیعت کو توڑ ڈالا تو میری عمر کی قسم! یہ کوئی تمہارا نیا کام نہیں ۔ تم لوگ اس سے پہلے میرے باپ، میرے بھائی اور میرے چچا زاد مسلم بن عقیل کے ساتھ ایسا کر چکے ہو، دھوکے میں پڑا وہی ہے جو تم لوگوں سے دھوکہ کھائے۔‘‘[3]
٭ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو ان کے خطوط کے بارے میں شک تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں :
’’ان لوگوں نے مجھے خوف زدہ کیا۔ یہ رہے اہل کوفہ کے خطوط اور یہی میرے قاتل ہیں ۔‘‘[4]
٭ گزشتہ میں شیعہ مصنف حسین کورانی کی رائے کو مفصل ذکر کیا جا چکا ہے کہ ایک تو ان کوفیوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا ساتھ چھوڑ دیا، دوسرے جلدی سے کربلا جا پہنچے اور کوفی شیطان کو خوش کرنے اور رب رحمان کو ناراضی کرنے کے لیے جناب حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف تلواریں اٹھا لیں ۔ چنانچہ عمرو بن حجاج کوفی جو کل تک سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اور آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا زبردست حامی اور طرف دار تھا آج اپنے لشکر کو یہ کہہ رہا تھا:
|