اثرات سے پاک نہ کر سکتے تھے۔ چنانچہ ان لوگوں نے کمال مکاری و عیاری کے ساتھ جناب حسین رضی اللہ عنہ کو عداوتِ صحابہ کے اس دھاگے میں پرو دیا جس میں اس سے قبل اس نوع کے اور بھی متعدد جرائم پروئے ہوئے تھے، تاکہ فتنوں کی بھٹی میں جلائے جانے والی آگ میں اور اضافہ ہو۔
ان غداروں نے ایسا جرم کیا تھا کہ ’’غداری‘‘ کا کلنک قیامت تک کے لیے ان کے ماتھوں کی زینت بن گیا۔ چنانچہ علامہ بغدادی لکھتا ہے:
’’کوفی روافض ’’غدار‘‘ اور ’’بخیل‘‘ کے رسوائے زمانہ ناموں سے جانے پہچانے جاتے ہیں اور اب یہ لوگ غداری اور بخل و خیانت میں مثال بن چکے ہیں ۔ چنانچہ اب کسی کو بخیل اور غدار کہنا ہو تو اسے یہ کہا جاتا ہے: ’’ابخل من کوفی‘‘ اور ’’اغدر من کوفی‘‘ ’’تو تو کوفیوں سے بھی زیادہ بخیل ہے۔‘‘ اور ’’تو تو کوفیوں سے بھی زیادہ غدار ہے‘‘ آل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم سے ان کی تین رسوائے زمانہ غداریاں زیادہ مشہور ہیں :
۱… سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کوفیوں نے جناب حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے دست حق پرست پر سمع و طاعت کی بیعت کی پھر غداری کر کے اس بیعت کو توڑ ڈالا اور ساباطِ مدائن میں سنان جعفی نے اندھیرے میں آپ پر کدال کا وار کر کے آپ کو شدید زخمی کر دیا۔
۲… ان لوگوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو خطوط لکھے کہ آپ کوفہ چلے آئیے ہم یزید کے خلاف آپ کی مدد کریں گے۔ جناب حسین رضی اللہ عنہ ان پر دھوکہ کھا گئے اور کوفہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ جب آپ کربلا پہنچے تو انہوں نے غداری کی اور عبیداللہ بن زیاد کے ساتھ مل گئے حتیٰ کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل بیت کے اکثر افراد کو کربلا میں قتل کر دیا۔
۳… ان لوگوں نے زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب کے ساتھ بھی غداری کی۔ چنانچہ پہلے ان کی بیعت کی اور جب خروج کے بعد گھمسان کی جنگ ہونے لگی تو عین قتال کے وقت ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔‘‘[1]
جناب محمد بن علی بن ابی طالب بھی ان کوفیوں کو پرلے درجے کا غدار سمجھتے تھے اور وہ سیّدنا علی اور سیّدنا حسن رضی اللہ عنہما کے ساتھ کی جانے والی غداری کی ذمہ داری ان کوفیوں پر ڈالتے تھے۔ جیسا کہ بعد میں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کی جانے والی غداری کے ذمہ دار بھی انہی کوفیوں کو ٹھہراتے تھے۔ چنانچہ جناب محمد رحمہ اللہ نے اپنے بھائی سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو وصیت و نصیحت کرتے اور سمجھاتے ہوئے کہا:
|