ایک روایت میں آتا ہے کہ جب غدار عراقیوں نے سیّدنا مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کو دھوکہ سے چھوڑ دیا تو ان کے بیٹے عیسیٰ نے کہا: ’’آپ کسی مضبوط قلعہ کی پناہ لے کر اپنے پیچھے مہلب بن ابی صفرہ وغیرہ سے خط و کتابت کیوں نہیں کرتے ؟تاکہ وہ فوج لے کر آپ کی مدد کو پہنچیں کہ ابھی آپ کی صورتِ حال بے حد کمزور ہے۔ سیّدنا مصعب رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ پھر انہوں نے سیّدنا حسین، ان کے بھائی سیّدنا حسن اور ان کے والد ماجد امیر المومنین سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم کے ساتھ ہونے والے واقعات اور ان کے ساتھ کوفیوں کے غدارانہ رویوں کی پوری داستان اپنے بیٹے کو سنائی کہ کیسے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ بے یار و مددگار قتل کر دئیے گئے اور کسی نے ان کا ساتھ نہ دیا، پھر فرمایا: ’’ان کوفیوں نے ہمارے ساتھ بھی وفا نہیں کی۔‘‘
اس کے بعد کوفی سیّدنا مصعب بن زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا ساتھ چھوڑ گئے اور غدر و خیانت کرتے ہوئے عبدالملک بن مروان سے جا ملے،[1] جبکہ ان کے ساتھ معدودے چند وفادار رہ گئے اور بالآخر حضرت مصعب بن زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے۔ اس دن ان غارت گر عراقیوں کے زیادہ معاون غیر مسلم تھے۔ یہ امر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آج جو لوگ بھی ان کوفیوں ، سبائیوں اور رافضیوں کے دفاع میں لگے ہیں شبہ ہے کہ یہ لوگ دراصل امت مسلمہ کی تفریق و تمزیق کے فریضہ کو سرانجام دینے میں لگے ہیں ۔
سیدنا مصعب بن زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی شہادت پر سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا مرثیہ کہتے ہوئے سلیمان بن قتّہ کہتا ہے:
و ان قتیل الطف من آل ہاشم
ذل رقابا من قریش فذلت
فان یتبعوہ عائذ البیت یصبحوا
کعاد نعمت عن ہداہا فضلت[2]
’’ان کوفیوں نے طف کے دن آل ہاشم کے اس نوجوان کو مار ڈالا جس کے آگے قریش کی گردنیں جھکی رہتی تھیں اور اگر اب ان لوگوں نے ’’عائذ البیت‘‘ کو بھی قتیل طف کے پیچھے بھیج دیا تو یہ قومِ عاد کی طرح بن جائیں گے جو ہدایت سے اندھے اور بے راہ تھے۔‘‘
قتیل طف سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما ہیں ۔ طف یہ کربلا کی وہ سرزمین ہے جہاں سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو
|