کی کثرت ہے کہ سر حسین رضی اللہ عنہ وہاں دفن ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ روایات کی اس قدر کثرت کے باوجود ایک محقق کسی حتمی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتا کہ بالآخر سر حسین رضی اللہ عنہ کا مدفن کہاں ہے؟
سبائی رافضیوں کی اس تشویش سازی اور ایہام انگیزی کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے تاکہ امت مسلمہ کو اصل مجرموں اور قاتلوں کا قرار واقعی علم نہ ہو سکے اور وہ کتاب و سنت کی تعلیمات سے دُور ہوتے ہوتے نام نہاد بدعتوں اور رسموں کو دین سمجھ کر ان میں مکڑی کے جالے میں پھنسنے والی مکھی کی طرح اور پھنستے چلے جائیں ۔
چنانچہ جب ابو نعیم نے فضل بن دکین سے قبر حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بے پناہ وسیع علم ہونے اور ایسے حوادث و واقعات کی گہری معلومات رکھنے کے باوجود لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نہیں جانتا۔[1] گویا علوم و معارف کے ان پہاڑوں کے نزدیک ایسے امور کی معلومات رکھنا یا ان کی تعیین و تحقیق کے درپے ہونا کچھ ضروری نہیں تھا کیونکہ عقیدہ و عمل میں کسی بات کا بھی ان معلومات پر انحصار نہیں ۔
سیّدنا مصعب بن زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے بھی جب عبدالملک بن مروان کے خلاف خروج کیا تو ان کوفیوں نے بھرپور ساتھ دینے کا وعدہ کیا لیکن عین اس وقت جب کوفہ کے قریب مقامِ دیر جا ثلیق پر آپ کا ابن مروان سے سامنا ہوا تو یہ کوفی حسبِ عادت آپ کا ساتھ چھوڑ کر تتر بتر ہو گئے اور آپ کی ہر بات ماننے سے صاف انکار کر دیا اس پر آپ نے خود کو موت کے لیے تیار کر لیا اور خود سے ہم کلام ہوتے ہوئے کہنے لگے: ’’میرے لیے حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی ذات میں بہترین نمونہ تھا‘‘ اور خود کو تسلی دیتے ہوئے یہ شعر پڑھا:
و ان الاولی بالطف من آل ہاشم
تأسوا فسنوا للکرام التأسیا
’’مقام طف[2] پر آل بنی ہاشم اس سے قبل بعد میں آنے والے شریفوں کے لیے ایک نمونہ چھوڑ گئے ہیں ۔‘‘
پھر حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’اللہ بھلا کرے ابو بحر (یعنی احنف بن قیس) کا، جنہوں نے مجھے عراقیوں کی غدارانہ خوئے بد سے ڈرایا تھا۔ گویا وہ اس وقت بھی اس صورتِ حال کو دیکھ رہے تھی جس میں میں اب ہوں ۔‘‘
|