کہ جس شخص کا یہ حال ہو وہ کبھی لفظ ’’حسین‘‘ کو ’’حسین‘‘ نہ پڑھے گا بلکہ ہسین ہی پڑھے گا۔ بھلا کہاں نوجوانانِ جنت کا سردار عربی ہاشمی مطلبی قرشی حسین رضی اللہ عنہ ، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نورِ نظر، سیّدنا علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کا لخت جگر، کتاب و سنت کا سچا پیرو، محبوبِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور شہ ابرار و اخیار اور کہاں وہ عجمی ہسین جس کی خدا کو چھوڑ کر قسمیں کھائی جاتی ہیں اور لوگوں کو کتاب و سنت کے عقیدہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی توحید سے پھیرنے کے لیے جگہ جگہ اس کے نام پر اونچے اونچے مشاہد و مزارات اور قبے اور تعزیے بنائے جاتے ہیں ۔
عبیداللہ ابن مرجانہ فارسیہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بدگوئی اور یاوہ گوئی کرتا تھا جب کہ ان کوفیوں کو قریب کرتا اور خود بھی ان کے قریب ہوتا تھا، جو ہر شریف کو بے یار و مددگار چھوڑ دیتے، ہر نیک کے ساتھ جور و جفا کرتے، ہر کریم کو ذلیل کرتے اور ہر امین کو کاذب و خائن قرار دیتے تھے۔ کیا اسلام کے سچے پیروکاروں میں سے کوئی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آبرؤ وں پر بھی ہاتھ ڈالا کرتا ہے؟!!
ہاں ایسا ابن زیاد جیسا اجڈ اور احمق ہی کر سکتا تھا جس کی حماقت اور اجڈ پن کوفیوں کے اجڈ پنے سے کسی طرح بھی کم نہ تھا۔ بلکہ ان سے بھی دو ہاتھ آگے تھا۔ قتل حسین رضی اللہ عنہ کے ارتکاب کا فعل بتلاتا ہے کہ ابن زیاد کوفہ کے بدبودار اور متعفن معاشرے کا پروردہ تھا جس کی رگ رگ میں آل بیت رسول کی بے ادبی و بے لحاظی رچی بسی تھی۔ جس کی شہادت مندرجہ ذیل حوالہ جات دیتے ہیں :
٭ حبیب بن یسار کہتے ہیں : سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو جب شہید کر دیا گیا تو حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ مسجد کے دروازے کی طرف اٹھے اور فرمایا: کیا تم لوگوں نے یہ کر ڈالا، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا ہے: ’’اے اللہ! میں ان دونوں کو (یعنی حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو) اور نیکوں کار مومنوں کو تیری پناہ (اور حفاظت) میں دیتا ہوں ۔‘‘ جب ابن زیاد کو بتلایا گیا کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ تو یہ یہ کہہ رہے ہیں تو اس (بے ادب و گستاخ نے یاوہ گوئی کرتے ہوئے) یہ کہا: اس بوڑھے کی عقل ماری گئی ہے۔[1] کیا کتاب و سنت پر ایمان رکھنے والا کوئی مومن کسی بھی صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسی دریدہ دہنی کی جسارت کا سوچ بھی سکتا ہے؟ لیکن امیر کوفہ ابن مرجانہ فارسیہ نے یہ کیا اور ذرا پروا نہ کی۔ ابن زیاد شاتمین صحابہ کی اسی لڑی کا ایک دانہ ہے جو آج تک یہ فعل بد حب آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ میں کرتے چلے آ رہے ہیں ۔
٭ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ابن مرجانہ فارسیہ کے سامنے سبط رسول سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا سرمبارک لایا گیا تو وہ ناہنجار اپنے ہاتھ میں پکڑی چھڑی کو سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے
|