ہاشمی و قریشی نوجوان سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے حکم دینے میں کوفیوں کا کس قدر ہاتھ تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جرأت کرنے میں ابن زیاد ان کوفیوں کے کس قدر مشابہ تھا اس کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ ابن زیاد مرجانہ نامی ایک ایرانی مجوسی عورت کا بیٹا تھا جو یزد گرد یا کسی اور ایرانی بادشاہ کی بیٹی تھی۔[1]
یہیں سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ بالآخر یہ اعدائے صحابہ ابن زیاد کے مادری نسب کے ذکر سے اپنے لب کیوں سیے بیٹھے ہیں اور بس اتنا کہہ لینے پر اکتفار کر لیتے ہیں : ’’ابن زیاد ابن مرجانہ۔‘‘ جو اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ انہیں کوفیوں سے کسی قدر قرب و محبت ہے۔ آج کے کچھ لوگ بھی سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مجوسی قاتل کا نام صرف اسی قدر لیتے ہیں : ’’ابو لؤلؤہ مجوسی‘‘… بلکہ بعض تو ابو لؤلؤہ کو اپنے مقدس اولیاء میں شمار کرتے ہیں ۔ جبکہ عین اسی وقت یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سسر ابو سفیان رضی اللہ عنہ پر بے حرمتیوں اور بے ادبیوں کے شدید حملے کر کے ان کے پاکیزہ کردار کو بدشکل بنانے اور بگاڑنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں ۔ حالانکہ سیّدنا ابو سفیان بن حرب بن امیہ رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے قبل بھی قریش کے سردار اور نہایت سربرآوردہ شخص تھے۔ لیکن اس سب کے باوجود انہیں بدترین گالیاں دیتے ہیں جیسے سیّدنا ابی سفیان رضی اللہ عنہ قریشی سردار نہ ہوں بلکہ کوئی گئے گزرے عجمی کوفی ہوں ؟!!
حالانکہ یہ کوفی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنابِ ابو سفیان رضی اللہ عنہ اس بے داغ کردار کے مالک ہیں جن کے دامن عفت و امانت پر دورِ جاہلیت میں بھی غدر و خیانت کا ایک چھینٹا تک لگایا نہیں جا سکا اور اسلام تاریخ ہی نہیں بلکہ غیر اسلامی تاریخ کے کسی بھی ماخذ سے ایک شہادت بھی ایسی نہیں ملتی جو جنابِ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بلند کرداری پر دھوکا، فریب، مکر اور عیاری کا ایک داغ بھی ثابت کر سکے۔
یہ ہے قاتلانِ حسین شعوبی اہل کوفہ کی تصویر کا ایک رخ جو قتلِ حسین رضی اللہ عنہ کے واقعہ کو شکوک و شبہات اور کذب و زُور کی گرد سے اَٹ دینے کے لیے اپنی ساری طاقتیں خرچ کر رہے ہیں تاکہ خود کو اور اپنے امیر ابن مرجانہ کو خونِ حسین رضی اللہ عنہ کے جرم کے الزام سے بچا سکیں ۔
اگر ابن مرجانہ کی پرورش و تربیت، اس کے کوفی مکاتب فکر سے استفادہ، اس کے مجوسی و ایرانی ماموؤں اور بعض عربی الفاظ کو ایرانی تلفظ میں ادا کرنے کی خو کی (جیسا کہ ابن مرجانہ ’’حروری‘‘[2] کو ’’ہروری‘‘ اور ’’حسین‘‘ کو ’’ھسین‘‘ پڑھتا تھا) قرار واقعی معلومات حاصل کی جائیں تو یہ حقیقت آشکارا ہو گی
|