Maktaba Wahhabi

219 - 441
مفید تھی۔ ابن زیاد چاہتا تو اوّل صلح کی شقوں میں سے کسی ایک شق کو اختیار کر لیتا، یا پھر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو خلافت کی عدالت میں پیش کر دیتا اور ان کے خلاف شریعت کے حکم کے مطابق فیصلہ کرتا، لیکن اس احمق نے خیر و عافیت اور صلح و سلامتی کی کسی راہ کو اختیار نہ کیا، بلکہ دشوار ترین، تنگ ترین، نہایت تباہ کن، ازحد مہلک اور بے حد فاجرانہ راستہ اختیار کیا جو اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ ابن زیاد کا اندازِ فکر اعدائے صحابہ کے فکر و عقیدہ کے کس قدر قریب تھا، جس کے بعد ابن زیاد نے اپنے لیے عذر کی کوئی راہ باقی نہیں چھوڑی اور اپنے سر پر گناہ کے اس طوق کو ڈال لیا۔ کیونکہ ابن زیاد نے شر کا قصد کیا۔ ایذاء و اضرار کو اختیار کیا اور دین و شرع، صلح و خیر اور التماس و اعتذار کے سب دروازے بند کر دئیے اور اپنی ہی قوم کے ایک ایسے شخص کی بات پر کان نہ دھرے جو سب سے زیادہ معزز و موقر تھا، جس کو لوگوں نے دھوکا اور فریب کے ساتھ دور دیار میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا تھا۔ یاپھر ایک ایسے شخص کی بات کو لائق التفات نہ جانا جو قابو یافتہ اسیر بے زنجیر کے حکم میں تھا اور رجولیت، مکارم شیم و فضائل اور قدرت کے وقت معاف کر دینے کے بلند اخلاق کا دامن چھوڑ کر نواسۂ رسول کی موجودہ حالت کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور اپنے ماتھے پر قیامت تک کے لیے حماقت و سفاہت، بے مروتی، رذالت، بے حیائی، شوخ چشمی، بداعتقادی اور جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں بے ادبی کے ارتکاب کا ٹیکہ لگا لیا اور خود کو اعدائے صحابہ کی اس اخلاقیات کے پلڑے میں جا بٹھایا جہاں بڑوں کی توقیر، چھوٹوں پر شفقت، صالحین کا ادب اور عقائد کے احترام کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ ابن زیاد کا یہ رسوائے زمانہ فعل بتلاتا ہے کہ اس کا سینہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کینہ سے کس قدر آلودہ تھا اور اس کا دل و دماغ رفض سے کس قدر متاثر تھا۔ مثل مشہور ہے کہ آدمی اپنے ہم جنسوں کے ساتھ ہی نشست و برخاست رکھتا ہے۔ جیسا کہ محاورہ ہے: کندہم جنس باہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز بھلا جس ماحول میں حضرات صحابہ کرام کی عزت و آبرو پر بٹے مارے جاتے ہوں ، وہاں سبطِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، جگر گوشۂ بتول سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی تعظیم و توقیر کا سوال بھی پیدا ہو سکتا ہے؟ کیا وہاں کسی کو نوجوانانِ جنت کے اس سردار کی قدر و منزلت کا اندازہ ہو سکتا ہے؟ اور بھلا یہ لوگ جناب حسین رضی اللہ عنہ کی تعظیم و تکریم کر بھی کیونکر سکتے تھے جو سیّد الانبیاء و المرسلین، احمد مصطفی، محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو وزیروں اور مشیروں جناب ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی شان میں ہر وقت گستاخیاں اور دریدہ دہنیاں کرتے ہوں ؟ ابن زیاد اور کوفیوں میں کس قدر روحانی تعلق تھا، کوفیوں کو ابن زیاد سے کس قدر قرب تھا، ابن زیاد کے
Flag Counter