سبطِ رسول کے خون سے ہاتھ رنگنے کی ناپاک جسارت کر ڈالی۔
ابن زیاد کی حماقت، اس کے مشیروں کی عاقبت نا اندیشی اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بے جا جرأت نے کوفیوں کے اس مذموم مقصد کی راہ ہموار کی۔
یاد رہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر کسی قسم کی جرأت صرف وہی کر سکتا ہے جو پرلے درجے کا کوڑھ مغز، بے بصیرت، ادب و اخلاص سے بے بہرہ، عقیدہ و نیت کا کھوٹا اور علم و عمل میں شدید کج روی کا شکار ہو۔ بظاہر چاہے وہ صوم و صلوٰۃ اور شعائر دینیہ کا کتنا ہی پابند اور ان پر عامل کیوں نہ ہو۔ کیونکہ ایسا شخص خیالی سینگوں کے ساتھ پہاڑ کو ٹکریں مار کر پاش پاش کرنا چاہتا ہے۔ بلاشبہ ایسا شخص حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جرأت کا مرکز اور ابن زیاد کی ثقافت کا پیرو ہے۔
یہ کہنا کسی طور پر بھی بے جا اور بے محل نہ ہو گا کہ خونِ حسین بن علی رضی اللہ عنہما میں انہی دشمنانِ صحابہ کا ہاتھ ہی تھا جنہوں نے کل اسی شیخی و عداوت کے جذبہ کے تحت سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو ان کی اہلیہ نائلہ بنت الفرافصہ کے سامنے شہید کر دیا تھا۔
یہی وہ کینہ پرور جذبہ تھا جو قتل حسین پر بھی ٹھنڈا نہ ہوا تھا۔ اسی لیے قتل کے بعد نوجوانانِ جنت کے اس سردار کا سر بھی تن سے جدا کر دیا گیا۔ ایسی گھٹیا حرکت صرف وہی کینہ پرور کمینہ ہی کر سکتا ہے جو اس سے قبل حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے خونوں سے بھی اپنے ہاتھ رنگ چکا ہو اور یہ نمائندہ کردار رافضیت و سبائیت کا ہے جس نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی جان لینے سے اپنے جذبۂ انتقام کا آغاز کیا اور انتہا سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی جان لے کر کی۔
ابن زیاد اس نمائندہ رافضیت و سبائیت کا آلۂ کار تھا جس نے قتل حسین پر ہی اس وقت اصرار کیا جب اس مسئلہ کا حل صرف یہی نہیں تھا۔ بلکہ اس کے سامنے تین صورتیں اور بھی تھیں اور صلح کے جملہ وسائل بھی میسر تھے اور رب تعالیٰ کا بھی یہی ارشاد ہے:
﴿وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ﴾ (النساء: ۱۲۸) ’’اور صلح بہتر ہے۔‘‘
یہ بدترین دشمنی اور جارحیت ان نادیدہ ہاتھوں کا پتا دیتی ہے جو گناہ لے کر لوٹے اور سازشوں کے ان تانوں بانوں کو واضح کرتی ہے جن کو امیر المومنین سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھول سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے خون بہانے میں استعمال کیا گیا۔ بالخصوص جبکہ ان دونوں جرائم کا ارتکاب کرنے سے صلح اور باہمی افہام و تفہیم کے جملہ وسائل میسر تھے۔
پھر یہ صلح صرف امت مسلمہ کے حق میں ہی مصلحت نہ تھی بلکہ خود ابن زیاد احمق کے حق میں بھی نہایت
|