Maktaba Wahhabi

193 - 441
اظہار تم لوگوں نے اپنے بھیجے جانے والے خطوط میں کیا تھا تو میں لوٹ جاتا ہوں ۔‘‘ یہ سن کر حر بولا: جانے آپ کن خطوط کا ذکر کر رہے ہیں ؟ مجھے تو یاد نہیں ۔ اس پر حسین( رضی اللہ عنہما ) نے عقبہ بن عامر کو حکم دیا تو اس نے دو خورجیاں نکالیں جو اہل کوفہ کے بھیجے گئے خطوط سے بھری تھیں ۔ حر بولا: میں ان لوگوں میں سے نہیں جنہوں نے خطوط لکھے تھے۔ مجھے تو بس یہ حکم ملا ہے کہ جب میری آپ سے ملاقات ہو تو جب تک میں کوفہ میں آپ کو ابن زیاد کے سامنے پیش نہ کر دوں اس وقت تک آپ کے ساتھ ساتھ رہوں اور آپ سے جدا نہ ہوں ۔ حسین علیہ السلام نے کہا: موت تیرے اس بات سے زیادہ قریب ہے اور اپنے اصحاب کو سوار ہونے کا حکم دے دیا۔ آپ کے ساتھ اہل بیت کی خواتین بھی سواریوں پر سوار ہو گئیں اور مدینہ کی طرف رخ کر لیا۔ یہ دیکھ کر حر نے اپنی فوج لے کر مدینہ کے راستے کو روک لیا۔ حسین( رضی اللہ عنہما ) نے کہا: تیری ماں تجھے گم کرے، تو ہم سے کیا چاہتا ہے؟ حر نے یہ سن کر کہا: اگر آپ کے علاوہ کوئی عرب میرے سامنے ایسے حال میں ہوتا اور مجھے یہ بات کرتا تو میں بھی اس کی ماں کو یہی بات کہتا چاہے خواہ وہ کوئی بھی ہوتا۔ اللہ کی قسم! ہم آپ کی والدہ کو کچھ بھی نہیں کہہ سکتے ہاں بہتر سے بہتر جو بات ہم کر سکتے ہیں ، وہی کہہ سکتے ہیں ۔ بس اب ایسا راستہ لے لیجیے جو نہ کوفہ جاتا ہو اور نہ مدینہ تاکہ میں ابن زیاد کو اپنا عذر لکھ کر بھیج سکوں تاکہ اللہ ہمیں عافیت بخشے اور آپ کی بات کسی آزمائش میں مبتلا نہ کرے۔[1] یہ واقعہ اور بھی متعدد معتبر و مشہور شیعہ مؤلفین نے لکھا ہے، جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ جب کوفہ کے شیعہ نے سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا ساتھ چھوڑ دیا اور آپ سے غداری کا ارتکاب کیا تو سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے مدینہ واپس جانے کی کوشش کی۔ چنانچہ یہ واقعہ عباس قمی،[2] عبدالرزاق موسوی،[3] باقر شریف قرشی،[4] احمد راسم نفیس،[5] فاضل عباس حیاوی،[6] شریف جواہری،[7] اسد حیدر،[8] اروی قصیر قلیط،[9] محسن حسینی[10] عبدالہادی صالح،[11] عبدالحسین شرف الدین [12] اور رضی القزوینی [13]وغیرہ نے بھی نقل کیا ہے۔
Flag Counter