Maktaba Wahhabi

192 - 441
رہی، حتیٰ کہ حسین علیہ السلام نے اسے کہا: ’’اگر تو تم میرے پاس آنے والے خطوط اور قاصدوں کے خلاف چل رہے ہو تو میں ادھر ہی لوٹ جاتا ہوں جہاں سے آیا تھا۔‘‘ لیکن حر اور اس کے ساتھیوں نے حسین علیہ السلام کو ایسا نہ کرنے دیا اور کہا: ’’آپ واپس تو نہیں جا سکتے البتہ کسی ایسے راستے پر چل پڑیے جو نہ مدینہ جاتا ہو اور نہ کوفہ پہنچتا ہو تاکہ میں ابن زیاد کے سامنے یہ عذر کرنے کے قابل تو ہو سکوں کہ آپ کسی اور راستے سے آ رہے تھے، میرا اور آپ کا سامنا ہی نہیں ہوا، اس لیے میں آپ کو گرفتار نہیں کر سکا۔‘‘ اس پر حسین علیہ السلام نے داہنا راستہ لیا اور ’’عذیب الہجانات‘‘ جا پہنچے۔[1] آیت اللہ محمد تقی آل بحر العلوم لکھتا ہے: ’’حسین( رضی اللہ عنہ ) ایک چادر، ایک تہبند اور جوتیوں کے ایک جوڑے کے ساتھ نکلے، آپ نے تلوار کی نیام پر سہارا لیا ہوا تھا۔ قوم نے استقبال کیا۔ آپ نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ’’اب میرا معاملہ اللہ اور تمہارے حوالے ہے جب تک تمہارے خطوط میرے پاس نہیں آئے اور تمہارے قاصد میرے پاس نہیں پہنچے جنہوں نے تم لوگوں کی طرف سے پیغام دیا کہ ہمارے پاس چلے آئیے کیونکہ اس وقت ہمارا کوئی امام نہیں شاید اللہ آپ کی وجہ سے ہمیں حق پر جمع کر دے، میں تمہارے پاس نہیں آیا۔ پس اگر تو تم اپنی بات پر قائم ہو تو لو میں تو آ چکا، اب مجھے عہد و میثاق دو تاکہ میں مطمئن ہو جاؤ ں اور اگر میرا آنا تم لوگوں کو ناگوار ہے تو ادھر لوٹ جاتا ہوں جدھر سے آیا تھا۔‘‘ یہ سن کر سب نے دم سادھ لیے اور خاموش ہو گئے۔ اتنے میں حجاج بن مسروق جعفی نے ظہر کی نماز کی اذان دے دی۔ حسین( رضی اللہ عنہما ) نے حر سے پوچھا: ’’کیا تم اپنے ساتھیوں کو (علیحدہ) نماز پڑھاؤ گے؟‘‘ حر نے جواب دیا: نہیں بلکہ ہم آپ کے پیچھے اکٹھے نماز پڑھیں گے۔ پس حسین( رضی اللہ عنہما ) نے ان سب کو نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور حمد و صلوٰۃ کے بعد یہ ارشاد فرمایا: اے لوگ! اگر تم اللہ سے ڈرو اور اہل حق کا حق پہچانو تو یہ بات رب تعالیٰ کو بے حد راضی کرنے والی ہے۔ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت اس امر کے ان لوگوں سے زیادہ مستحق ہیں جو اس امر کے دعوے دار ہیں حالانکہ وہ اس کے اہل نہیں اور وہ ظلم و جور کے خوگر بھی ہیں اور اگر تم لوگ ہم سے کراہت کرتے ہو اور ہمارے حق سے جہالت برتتے ہو اور اب تمہاری وہ رائے نہیں جس کا
Flag Counter