رعایت کے زیر سایہ منصہ شہود پر وقوع پذیر ہوئے۔ بلکہ خود سیّدنا علی رضی اللہ عنہ آپ کو معرکۂ کارزار میں اترنے اور دادِ شجاعت دینے پر ابھارا کرتے تھے۔
سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے اپنے والد ماجد کی زندگی میں یہ کارنامے اعدائے صحابہ رضی اللہ عنہم کی وصی اور وصیت کے نام پر پھیلائی جانے والی باطل اور من گھڑت کہانیوں کا برملا انکار کرتے ہیں جن کا کسی صحیح حدیث میں حضرات اہل بیت اطہار کے بارے میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ بے شک حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم وصیت کے اس من گھڑت قصہ سے اور ان افسانہ تراشوں سے بری ہیں ۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ تو اپنی شہادت کے وقت اپنی اولاد سیّدنا حسن اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہما کو یہ وصیت فرما رہے ہیں :
’’اے میرے دونوں بیٹو! میں تم دونوں کو رب کے تقویٰ کی، نمازوں کو اپنے وقت پر ادا کرنے کی، زکوٰۃ کو اپنے مصارف میں ادا کرنے اور وضو کو اچھے طریقے سے کرنے کی وصیت کرتا ہوں ۔ میں تمہیں غلطی معاف کرنے، غصہ پی جانے، صلہ رحمی کرنے، نادانی پر برداشت کا مظاہرہ کرنے، دین میں تفقہ حاصل کرنے، ثابت قدم رہنے، قرآن پڑھتے رہنے، پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینے، بے حیائیوں سے بچنے کی وصیت کرتا ہوں ۔‘‘
پھر آپ نے محمد بن حنفیہ کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا:
’’میں نے تمہارے دونوں بھائیوں کو جن باتوں کی وصیت کی ہے، کیا تم نے بھی ان کو یاد کر لیا ہے؟ وہ بولے: جی ہاں ! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میری یہ نصیحتیں تمہارے لیے بھی ہیں اور مزید یہ کہ اپنے ان دونوں بھائیوں کے حقوق کو ادا کرتے رہنا، ان کی تعظیم کرتے رہنا، ان کے بغیر کوئی کام نہ کرنا۔ پھر حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے یہ فرمایا: ’’یہ وصیت میں تم لوگوں کو بھی کرتا ہوں ۔ محمد تم دونوں کا باپ شریک بھائی ہے اور تم دونوں جانتے ہو کہ تمہارے باپ کو محمد سے پیار ہے۔‘‘
اس کے بعد آپ نے یہ وصیت لکھوائی:
بسم اللہ الرحمن الرحیم!
’’یہ علی بن ابی طالب کی وصیت ہے، وہ اس بات کی وصیت کرتا ہے کہ وہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ ایک اکیلے اللہ وحدہٗ لا شریک کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں جن کو رب تعالیٰ نے ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس دین کو سب دینوں پر غالب کر دیں چاہے مشرکوں کو برا ہی لگے۔ پھر یہ کہ میری نماز اور میری
|