کے دولت کدہ سے نکلے اور لوگوں کو پھلانگتے آگے بڑھنے لگے اور ان پر ان یمنی جوڑوں میں سے کچھ بھی نہ تھا۔ یہ دیکھ کر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے چہرے پر تشویش کے آثار نظر آنے لگے۔ پھر فرمایا: اللہ کی قسم! جب تک میں تم دونوں کو بھی یمنی جوڑے نہ پہنا دوں گا میرے دل کو سکون نہ آئے گا۔ انہوں نے عرض کیا: اے امیر المومنین! آپ نے اپنی رعایا کو پہنایا تو خوب کیا (اگر ہم رہ گئے تو کیا ہوا)۔ آپ نے فرمایا: ان دو نوجوانوں کے لیے جو لوگوں کو پھلانگتے آ رہے ہیں اور ان کے بدنوں پر یمنی جوڑے نہیں ، وہ جوڑے ان سے بڑے تھے۔ پھر آپ نے یمن خط لکھا کہ دو جوڑے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے ماپ کے بھیجو اور جلدی بھیجو۔ چنانچہ یمن کے عامل نے دو جوڑے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو بھیجے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں پہنائے۔‘‘[1]
سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے مشارکات میں سے ایک اہم ترین بات یہ ہے کہ آپ نے دوسرے مسلمانوں کی طرح جہاد میں عملی شرکت کی۔ چنانچہ خلافت عثمانی کے دَور میں حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما نے غزوۂ طبرستان میں شرکت کی جس کی امارت سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھی جو اس وقت کوفہ کے گورنر تھے۔ چنانچہ حضرت سعید بن عاص رضی اللہ عنہ حضرت حذیفہ بن یمان اور متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ اس غزوہ پر روانہ ہوئے جس میں حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما بھی شریک تھے۔
سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی بطولت و شجاعت اور جرأت و شہامت کا نہایت ایمان افروز واقعہ آپ کا خلیفہ مظلوم و شہید سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے قصر خلافت کی حفاظت کرنا اور اس کا پہرا دینا ہے۔ چنانچہ جب سبائی بلوائیوں نے امام شہید رضی اللہ عنہ تک پہنچنے کے لیے حملہ کیا تو دوسرے پہرے داروں اور جاں نثاروں کے ساتھ آپ بھی ان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے رہے۔ چنانچہ ام المومنین سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام کنانہ کہتے ہیں :
’’میں سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو دارِ عثمان میں زخمی حالت میں اٹھا کر لانے والوں میں سے ایک تھا۔‘‘[2]
یہ تاریخی اشارات بتلاتے ہیں کہ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے عسکری اور سیاسی زندگی میں بھرپور حصہ لیا، جہاد فی سبیل اللہ کا اجر کمایا اور خلیفہ راشد رضی اللہ عنہ کا دفاع کر کے رب تعالیٰ کا قرب حاصل کیا۔ آپ سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دشمنوں کے سامنے جرأت و شجاعت کی ایک نئی داستان رقم کی۔ آپ کے یہ قابل فخر اور ناقابل فراموش جہادی کارنامے والد ماجد سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حیات میں اور ان کی عنایت و
|