Maktaba Wahhabi

123 - 441
کہ آپ نے اپنی کنیت ’’ابو حسین‘‘ رکھی ہو۔ یہاں یہ اہم سوال اٹھتا ہے کہ آخر یہ نسبتیں ، القاب اور کنیتیں سب سے پہلے کس نے ایجاد کیں ؟ کیا ان نسبتوں کا تعلق اس فکری جنگ سے تو نہیں جو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دشمنوں نے ان کے خلاف برپا کر رکھی ہے؟ اور وہ آج تک اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ امت مسلمہ کے قدم سنت نبویہ کے مسلمات پر سے اکھاڑ دئیے جائیں ۔ چنانچہ ان لوگوں نے بعض ناموں کو اتنا بلند کیا کہ انہیں پیغمبروں اور فرشتوں کے درجات سے بھی اوپر لے گئے اور اس فعل کا عذر یہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں ان ناموں سے بے حد پیار ہے، وہ ان ناموں کی بے حد تعظیم و تکریم کرتے ہیں اور ان کی امامت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ جبکہ عین اسی وقت یہی نام نہاد محبانِ آلِ بیت بعض دوسرے بلکہ بسا اوقات باقی تمام صحابہ کرام بالخصوص حضرات خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم اور دیگر اسلاف امت اور ابرار و اخیار کے ناموں کو بے حد بگاڑتے ہیں اور ان مقدس ہستیوں کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جو لوگوں کو ان سے نفرت دلاتی اور ان کے نزدیک انہیں مبغوض بناتی ہیں اور یہ سب کچھ حب آل بیت کی چھتری تلے کیا جاتا ہے۔ کیا آلِ بیت رضی اللہ عنہم ایسے ہی تھے؟ تاریخ کا مطالعہ کرنے والا اس وقت حیران و پریشان رہ جاتا ہے جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ حب آل بیت رضی اللہ عنہم کے یہ نام نہاد دعوے داران کے انصار و اولیاء صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کے سچے پیروکاروں سے شدید بغض اور نفرت رکھتے ہیں اور سیّد آل بیت، حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے ساتھ ان کا رویہ شدید کینہ پروری پر مشتمل ہے، یہ آل بیت کی زبان سے جو کتاب و سنت کی زبان ہے، برسرپیکار ہیں جبکہ اُس زبان پر فخر کرتے ہیں جس کا کتاب و سنت سے کوئی واسطہ نہیں ۔ یہ سب سوالات اس بات کو لازم قرار دیتے ہیں کہ جسے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آل بیت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذریت و ازواج، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچوں اور ان کی اولادوں سے، جن پر صدقات اور زکوٰۃ حرام ہے، محبت کرتا ہے، وہ ان بزرگ ہستیوں سے اعلیٰ درجہ کی محبت کرے، ان سے ولا و وفا کا بلند ترین تعلق رکھے اور یہ محبت و ولا خالص رب کی رضا کے لیے ہو جس میں عزت و شرافت، دانش و بینش، حزم و احتیاط اور ذکاوت و ذہانت کے دقیق ترین اور لطیف ترین پہلوؤ ں کی کمال رعایت کی گئی ہو۔ پس جو بھی آلِ بیت سے محبت کرتا ہے، وہ دراصل اپنے اوپر اس بات کو واجب کر دیتا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اہل سے بھی محبت کرے گا جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محبت تھی۔ جن میں سرفہرست سیّدہ عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کا نام نامی اور اسم سامی آتا ہے جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب انسانوں سے زیادہ محبت تھی۔ ایسا شخص اپنی ذات پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو وزیروں سیّدنا ابوبکر اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہما کی محبت کو،
Flag Counter