Maktaba Wahhabi

122 - 441
کے مختلف نام تجویز کیے ہوں ۔ رویاات میں حرب، حمزہ اور جعفر کے ناموں کا ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ’’حسن‘‘ کی ولادت ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: ’’مجھے میرا بیٹا دکھلاؤ (اور بتلاؤ کہ) تم لوگوں نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں بلکہ ان کا نام ’’حسن‘‘ ہے۔‘‘ پھر جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ’’حسین‘‘ نے جنم لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: ’’مجھے میرا بیٹا دکھلاؤ ، تم لوگوں نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں بلکہ اس کا نام ’’حسین‘‘ ہے۔‘‘ پھر جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے تیسرے بیٹے کوجنم دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: ’’مجھے میرا بیٹا دکھلاؤ ، تم لوگوں نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا: میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’نہیں بلکہ اس کا نام ’’محسن‘‘ ہے۔‘‘ پھر ارشاد فرمایا: ’’میں نے ان تینوں کے یہ نام ہارون کے تین بیٹوں شبر، شبیر اور مشبر کے ناموں پر رکھے ہیں ۔‘‘[1] اس مقام پر میں چند اہم باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں ۔ ایک یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے نام تعریف کے الف لام کے بغیر حسن اور حسین رکھے (نہ کہ الحسن اور الحسین)۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما ہر قسم کی تعظیم و اجلال، تکریم و سیادت اور محبت و عقیدت کے مستحق ہیں ۔ دوسرے یہ کہ تلاش بسیار کے باوجود مجھے کتب سیرت و تاریخ میں سے اس شخص کا نام نہیں مل سکا جس نے سب سے پہلے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو زہرا اور بتول کے لقب کے ساتھ پکارا۔ اسی طرح اس شخص کا نام بھی مجھے معلوم نہیں ہو سکا جس نے امیر المومنین سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو سب سے پہلے ’’امام‘‘ کا لقب دیا۔ خاص طور پر اپنے ایام خلافت میں آپ امیر المومنین کے لقب کے ساتھ پکارے جاتے تھے۔ مجھے کسی صحیح روایت میں یہ پڑھنے کو نہیں ملا کہ آپ کے اصحاب میں سے کسی نے آپ کو اس معنی میں ’’یا امام‘‘ کہہ کر مخاطب کیا ہو جو اہل تشیع کی زبانوں پر عام ہے اور نہ مجھے ’’امیر المومنین‘‘ کی کنیت ’’ابو الحسین‘‘ کا کوئی سراغ ہی مل سکا ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی یہ کنیت سب سے پہلے کس نے استعمال کی ہے۔ حالانکہ آپ کی کنیت ’’ابو الحسن‘‘ تھی۔ جہاں تک میری معلومات ہیں کسی روایت میں اس بات کا ذکر نہیں
Flag Counter