Maktaba Wahhabi

114 - 441
کرنے کی بابت گمراہ کن کاوشوں کا اٹوٹ سلسلہ بھی ٹوٹ جائے اور حقائق کو بگاڑ کر پیش کرنے کی بابت ان کا رسوائے زمانہ گھناؤ نا اور ازحد خطرناک کردار بھی طشت از بام ہو جائے۔ جس نے سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما اور آلِ بیت اطہار کے پاکیزہ خونوں کو ’’ان کے دفاع‘‘ کے نام سے امت مسلمہ میں فساد، انتشار اور انارکی پھیلانے اور باہم جنگ برپا کرنے کا ایک شرم ناک ہتھکنڈا بنا رکھا ہے تاکہ امت مسلمہ دوہری مصیبت میں گرفتار ہو، چنانچہ ایک تو وہ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے جگر پاش واقعہ شہادت کا غم سہے، دوسرے سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما اور آل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے دفاع کے نام پر تراش لی جانے والی رسموں کے سائے تلے عقائد کی تحریف اور اتفاق و اتحاد کی پراگندگی کا شکار بھی ہو۔ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما اور ان کی آل اطہار رضی اللہ عنہم کی شہادت کا الم ناک واقعہ امت مسلمہ کے عقیدہ اور وحدت پر اس کے مترتب ہونے والے آثار، سلف صالحین کے عقیدہ و عمل کو مضبوطی سے تھامنے والے مسلمانوں اور اس کے برعکس باطل سرابوں کے پیچھے اوندھے ہو کر دوڑنے والے نام نہاد مسلمانوں کو دیکھتے ہوئے جنہوں نے اپنی زبانوں ، قلموں ، جانوں اور مالوں کو خیر القرون اور ان کے خدا رسیدہ بندوں پر زبانِ طعن دراز کرنے کے لیے وقف کر رکھا ہے جبکہ دوسری طرف انہی لوگوں نے شر القرون اور ان کے رذیل و خسیس لوگوں کی عذر خواہیوں کا بیڑا اٹھا رکھا ہے، ضروری تھا کہ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی سیرت پر ایک مختصر سا رسالہ تالیف کیا جائے جس میں سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کے واقعہ کو بلا کم و کاست بیان کیا جائے اور دھوکہ بازوں کے چہرے بھی بے نقاب کیے جائیں جنہوں نے پہلے تو خود آپ کو خطوط لکھے لیکن بعد میں کمال بے حیائی سے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اس کے بعد ہم نے اپنے اس رسالہ میں جن اہم ترین امور پر روشنی ڈالی ہے، وہ یہ ہیں : ٭ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے خروج کی صورت اور اس کے اسباب و محرکات ٭ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے خروج کے بارے میں موقف ٭ اہل کوفہ کا سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو بلوا کر بے یار و مددگار چھوڑ دینا ٭ میدانِ کربلا میں یزیدی افواج کا سامنا کرتے وقت سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا ان کے بارے میں اور اہل کوفہ کے بارے میں موقف۔ ٭ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا اہل کوفہ کے سامنے ان تین باتوں کو پیش کرنا جن میں وحدت و اجتماع کی دعوت اور فتنوں سے بچنے کی وصیت تھی اور وہ تین باتیں یہ ہیں : (۱)… یا تو مجھے مدینہ واپس جانے دو۔
Flag Counter