’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور بالکل سیدھی بات کہو۔ وہ تمھارے لیے تمھارے اعمال درست کر دے گا اور تمھارے لیے تمھارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے تو یقینا اس نے کامیابی حاصل کرلی، بہت بڑی کامیابی۔‘‘
اے اللہ! اے آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود بخشنے والے، چھپی اور ظاہر چیزوں کو جاننے والے، بے شک روزِ قیامت بندوں کے اختلافات کا فیصلہ تو ہی کرے گا۔ پس لوگوں نے حق بات میں بھی جو اختلاف کیا ہے، اس میں تو ہی مجھے اپنے حکم سے سیدھی راہ دکھا، بے شک جس کو تو چاہے سیدھی راہ کی ہدایت بخشتا ہے۔
اما بعد! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھول، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آنکھوں کی ٹھنڈک سیّدنا ابو عبداللہ حسین بن علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما کے بارے میں ایک مستقل کتاب لکھنے کا میرا شروع سے کوئی ارادہ نہ تھا۔ لیکن جب میں نے چوتھے خلیفہ راشد سیّدنا علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ پر قلم اٹھایا اور اس غرض کے لیے کتب سیرت و تاریخ کے سمندر میں اتر گیا تو اس بحر ناپید اکنار کی شناوری کرتے ہوئے مجھے اس بات کا شدت کے ساتھ احساس ہوا کہ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے صرفِ نظر کر کے گزرنا میرے لیے ممکن نہیں اور یہی احساس خلیفہ راشد پر پہلے قلم اٹھانے کی راہ میں حائل ہو گیا۔
چنانچہ میں نے چمنستانِ سیرت سے حضرت ختمی مرتبت سیّد الاوّلین و الآخرین سیّدنا و سیّد العالمین محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پھول کی کلیوں ، خوشبوؤ ں اور مہکوں کو جمع کرنا شروع کیا۔ جب معتبر و مستند معلومات کا ایک اچھا خاصہ ذخیرہ جمع ہو گیا تو ان سب کو کتاب و سنت کی روشنی میں ایک مرتب و مبوّب سیرت کی صورت میں امت مسلمہ کے افراد و اشخاص اور عوام و خواص کے سامنے پیش کرنا نہایت مفید لگا، تاکہ ان کے سامنے سبطِ رسول اور ریحانۂ رسول سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما اور ان کے خاندان کا صحیح خاکہ ابھر کر سامنے آسکے اور انہیں یہ بھی معلوم ہو کہ اس پاکیزہ خاندان اور بالخصوص سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے کیا فضائل و مناقب ہیں اور وہ یہ بھی جان لیں کہ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورتِ مبارکہ کے کس قدر مشابہ تھے، اور سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی پاکیزہ صورت و سیرت کی بنا پر امت مسلمہ کا سب سے بزرگ ترین طبقہ، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان سے کس قدر محبت کرتے تھے اور ان کے پاکیزہ دلوں اور پاک ذہنوں میں حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے اس چشم و چراغ کی کس قدر تعظیم اور کتنا احترام تھا۔
دوسرے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی تحریک کی بابت کھرے اور کھوٹے اور سچے اور من گھڑت واقعات ایک دوسرے سے یوں جدا ہو جائیں جیسے سورج کے طلوع ہونے سے رات کا اندھیرا دن کے سپیدے اور چاندنے سے جدا ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی کینہ پرور باطنیت کی سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی بے داغ شخصیت کو مسخ
|