Maktaba Wahhabi

88 - 512
العالمین پر مکمل بھروسہ رکھا اور نصرت وتائید کی پوری امید اللہ ہی سے وابستہ رکھی اور اللہ کی سکھائی ہوئی یہ دعا برابر پڑھتے رہے: [1] وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا ﴿٨٠﴾ (الاسراء: ۸۰) ’’اور یہ دعا کیا کریں کہ اے میرے پروردگار! مجھے جہاں لے جا اچھی طرح لے جا اور جہاں سے نکال اچھی طرح نکال، اور میرے لیے اپنے پاس سے غلبہ اور امداد مقرر فرما دے۔‘‘ اس آیت کریمہ کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعا سکھائی ہے تاکہ آپ خود یہ دعا کریں اور آپ کی امت یہ سیکھے کہ وہ کس طرح اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور کس طرح اس کی طرف متوجہ ہو۔ آغاز و انجام کی سچائی سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پورا سفر آغاز و اختتام، اوّل و آخر اور درمیان سب سچائی کے ساتھ انجام پذیر ہو، اس موقع پر سچائی کی اس حیثیت سے بڑی قیمت و اہمیت ہے کہ مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کلام سے پھیر کر اللہ پر افتراء پردازی پر ابھارنا چاہتے تھے، اس کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کر رہے تھے اور اسی طرح سچائی کے آثار و نتائج بے بہا ہیں، مثلاً ثبات، اطمینان، نظافت، اخلاص۔ {وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا} ’’اور میرے لیے اپنے پاس سے غلبہ و امداد مقرر فرما دے‘‘ تاکہ میں اس کے ذریعہ سے حکومت وسلطنت اور مشرکین کی قوت پر غالب آجاؤں۔ اور {مِنْ لَّدُنْکَ} (اپنے پاس سے) کا کلمہ اللہ سے قرب واتصال اور اس سے استمداد و التجا کی صحیح تصویر کشی کرتا ہے۔ صاحب دعوت وعزیمت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اللہ کے سوا کسی اور سے غلبہ وقوت طلب کرے، یا اس کے سوا کسی اور کے غلبہ وقوت سے خوفزدہ ہو۔ اور اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ کسی ایسے حاکم یا صاحب جاہ ومرتبت کا سہارا لے کر نصرت ومدد حاصل کرے جو اللہ کی طرف متوجہ نہ ہو۔ اسلامی دعوت کی تو یہ شان ہے کہ وہ امراء وسلاطین کے دلوں کو فتح کرتی ہے اور وہ لوگ اس کے خادم ولشکر بن کر کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ لیکن اگر دعوت امراء وسلاطین کی تابع بن جائے تو اس سے اس کو کوئی کامیابی نہیں مل سکتی۔ اسلامی دعوت تو اللہ تعالیٰ کا امر ہے، وہ امراء وسلاطین اور جاہ وحشمت والوں سے کہیں زیادہ ارفع واعلیٰ ہے۔[2] جس وقت مشرکین نے غار کو گھیر لیااورپورا غار ان کی نگاہوں کے سامنے آگیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اطمینان دلایا اور اللہ کی معیت کا مژدہ سنایا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر ان میں سے کسی نے اپنے قدموں کی طرف نگاہ ڈالی تو ہمیں دیکھ لے گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ما ظنک یا ابابکر باثنین اللّٰہ ثالثہما)) ’’اے ابوبکر ان دونوں کے بارے
Flag Counter