Maktaba Wahhabi

502 - 512
تھی۔ آپ کا حکم بردباری اور دور اندیشی پر مبنی ہوا کرتا تھا۔ آپ کی رائے علم وعزم کا پر تو ہوتی تھی۔ آپ کے ذریعہ سے دین قائم ہوا، ایمان قوی ہوا، اللہ کا حکم غالب آیا۔ واللہ آپ نے بڑی سبقت کی، اپنے بعد میں آنے والوں کو سخت تھکا دیا اور خیر کے ساتھ فوزمبین حاصل کی۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ کی قضا و قدر پر ہم راضی ہیں، اس کے حکم کو تسلیم کرتے ہیں۔ واللہ! مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی موت جیسی مصیبت نہیں آئی۔ آپ دین کے لیے عزت و امان اور پناہ گاہ تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا دے اور ہمیں آپ کے اجر سے محروم نہ کرے اور آپ کے بعد ہمیں گمراہی سے محفوظ رکھے۔‘‘ لوگ خاموشی کے ساتھ آپ کی یہ باتیں سنتے رہے پھر جب آپ نے اپنی بات مکمل کر لی تو لوگ رو پڑے اور رونے کی آواز بلند ہوئی اور سب نے کہا: آپ نے جو کچھ کہا سچ کہا۔[1] اور ایک روایت میں ہے کہ جس وقت علی رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے انہیں چادر اڑھا دی گئی تھی، فرمایا: ’’میرے نزدیک اس چادر سے ڈھکے ہوئے شخص سے بڑھ کر کوئی نہیں جس کے نامہ اعمال کے ساتھ مجھے اللہ سے ملاقات کرنا زیادہ محبوب ہو۔‘‘[2] وفات کے وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی عمر تریسٹھ(۶۳) سال تھی۔ اس پر تمام روایات متفق ہیں۔ آپ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر برابر تھی۔ آپ کو آپ کی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے غسل دیا، جس کی آپ نے وصیت فرمائی تھی۔[3] آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ آپ کا سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے برابر رکھا گیا[4] اور آپ کی نماز جنازہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور آپ کی قبر میں عمر، عثمان، طلحہ اور آپ کے بیٹے عبدالرحمن رضی اللہ عنہم اترے اور آپ کی لحد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر سے چپکا کے رکھا گیا۔[5] اس طرح چہار دانگ عالم میں اللہ کے دین کی نشر و اشاعت کی خاطر عظیم جہاد کرتے ہوئے ابوبکر رضی اللہ عنہ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ انسانی تہذیب و تمدن اس بطل جلیل کی مقروض رہے گی جس نے وفات نبوی کے بعد دعوت نبوت کا پرچم اٹھایا اور آپ کے لگائے ہوئے پودے کی حفاظت کی، عدل وحریت کے بیج کی نگہبانی کی اور اسے شہداء کے پاکیزہ خون سے سیراب کیا، جس سے ہر طرح کے ثمرات امت کو وافر مقدار میں ملے اور تاریخ میں علوم و ثقافت اور فکر میں عظیم تقدم حاصل ہوا۔ انسانی تہذیب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی مقروض رہے گی کیونکہ آپ کے جہاد اور صبر عظیم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی حفاظت فرمائی اور اسلام کو اقوام و امم اور مختلف ممالک میں عظیم فتوحات کے ذریعہ سے پھیلا دیا، جس کی مثال تاریخ
Flag Counter