Maktaba Wahhabi

492 - 512
(۶)…مسلمانوں کے پاس عظیم قائدین اور مجاہدین کی ثروت و قوت۔ (۷)…اسلامی جنگی منصوبہ بندی کا مستحکم ہونا۔[1] مفتوحہ ممالک سے متعلق اسباب وعوامل:… روم وفارس کی کمزور ہو چکے تھے ان کے اندر ظلم کا دور دورہ تھا، فساد عام ہو چکا تھا، بد اخلاقیاں اور بری عادات پھیل چکی تھیں، ان کی تہذیب کو بڑھاپا لاحق ہو چکا تھا، ان کے بادشاہوں کے ظلم نے ان کا جنازہ نکال دیا تھا، یہ اللہ کے منہج سے منحرف ہو چکے تھے، ان کے اندر اللہ کی سنت نافذ ہو چکی تھی جو رحم، مجاملت اور تبدیلی قبول نہیں کرتی۔ اور ان کے بالمقابل مسلمان، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے صحیح منہج کے ذریعہ سے شرف بخشا، انہوں نے اس پر عمل کیا اور غلبہ وتمکین کے اسباب اختیار کیے، اس کی شرائط کو پوری کیا اور قوموں اور حکومتوں کے قیام اور معاشرہ کی اصلاح کے سلسلہ میں اللہ کے قوانین فطرت کو اپنایا۔ میری بات سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ روم وفارس کی کمزوری نے مسلمانوں کے سامنے بڑے پیمانے پر راستہ ہموار کیا۔ مذکورہ اسباب کی بنا پر دونوں سلطنتوں کی کمزوری کے باوجود انہوں نے مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے بڑے زور شور سے تیاری کی، لاکھوں تربیت یافتہ فوجی تیار کیے جو تعداد اور جنگی ساز و سامان میں مسلمانوں سے کہیں زیادہ فوقیت رکھتے تھے۔ اسی طرح انہوں نے وہ اسلحہ بھی استعمال کیا جو مسلمانوں کے پاس میسر نہ تھا۔ مثلاً ہاتھی اور آنکس وشکنجے جنہیں وہ قلعوں کے پیچھے روانہ کرتے اور مسلمانوں کا شکار کرتے۔ اور اسی طرح یہ گمان بھی صحیح نہیں ہے کہ رومیوں نے مسلمانوں کو اہمیت نہ دی، جس کی وجہ سے انہوں نے تیاری نہ کی۔ اس خیال کی تردید ابن عساکر کی اس روایت سے ہوتی ہے: ’’ہرقل قیصر روم نے اپنے جرنیلوں کو حمص میں اکٹھا کیا اور ان سے کہا: میں نے تمہیں متنبہ کیا تھا لیکن تم نے میری بات نہ مانی۔ عرب مہینہ بھر کا سفر کرکے آتے ہیں اور تم پر حملہ کر کے چلے جاتے ہیں، ان کو زخم تک نہیں آتا۔ اس پر قیصر کے بھائی نے کہا: بلقاء میں محافظ فوج بھیج دیجیے۔ اس نے وہاں محافظ فوج تعینات کر دی اور اپنے ساتھیوں میں سے ایک شخص کو ان پر ذمہ دار بنایا۔ یہ محافظ فوج وہاں برابر ڈٹی رہی، یہاں تک کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے دور میں وہاں اسلامی افواج پہنچیں۔‘‘[2] 
Flag Counter