Maktaba Wahhabi

477 - 512
اندر نہ گھسا جائے۔ عراق وشام کی فتوحات میں یہ چیز بالکل نمایاں ہے۔ عراق پر چڑھائی کے وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خالد وعیاض رضی اللہ عنہما کو حکم بھیجا کہ وہ عراق پر حملہ جنوب اور شمال سے کریں۔ خط میں تحریر فرمایا: ’’تم دونوں میں سے جو حیرہ پہلے پہنچ جائے وہ حیرہ کا امیر ہوگا اور ان شاء اللہ جب تم دونوں حیرہ میں جمع ہو جاؤ اور عرب و فارس کے درمیان جنگی قوتوں کو توڑنے میں کامیاب ہو جاؤ اور مسلمانوں کے پیچھے سے خطرہ باقی نہ رہے تو تم میں سے ایک حیرہ میں ٹھہر جائے اور دوسرا دشمن پر حملہ آور ہو کر ان کے قبضہ میں جو ہے اس کو چھینے، اور اللہ سے مدد طلب کرو اور اس سے تقویٰ لازم پکڑو، دنیا پر آخرت کو ترجیح دو، دونوں تمہیں حاصل ہوں گی۔ دنیا کو ترجیح نہ دینا، ورنہ دونوں ہی ہاتھ سے نکل جائیںگی۔ معصیت کو ترک کر کے اور توبہ کے ذریعہ سے ان امور سے بچو جن سے اللہ نے ڈرایا ہے۔ خبردار! گناہوں پر اصرار اور توبہ میں تاخیر نہ کرنا۔‘‘[1] یہ عظیم خط ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بلند فکر اور دقیق منصوبہ پر اور قبل ازیں توفیق الٰہی پر دلالت کرتا ہے ہے۔ چنانچہ آپ کی جنگی منصوبہ بندی میں مہارت کی شہادت اس وقت کے سب سے بڑے جنگی ماہر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے دی۔ چنانچہ جب وہ شمالی عراق میں عیاض رضی اللہ عنہ کے فرائض کی تکمیل کے لیے اٹھے اور کربلا میں نزول فرمایا اور مسلمانوں نے آپ سے مکھیوں کی اذیت کی شکایت کی، تو آپ نے عبداللہ بن وثیمہ سے فرمایا: صبر سے کام لو، میں اس وقت یہ چاہتا ہوں کہ ان فوجی مقامات کو خالی کرا لوں جن کا عیاض کو حکم دیا گیا ہے اور وہاں عربوں کو آباد کر دوں، اس طرح مسلمانوں کو پیچھے کے خطرات سے محفوظ کر لیں گے اور پھر عربوں کی کمک بغیر کسی خطرہ کے ہم تک پہنچے گی اور خلیفہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ آپ کی رائے پوری امت کی حمایت کے برابر ہے۔[2] اسی منصوبہ پر عراق میں مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے عمل کیا چنانچہ اس نادرۂ روزگار کا بیان ہے: اہل فارس سے ان کی سرحدوں پر قتال کرو جو سر زمین عرب سے قریب ترین ہوں، ان کے ملک کے اندر نہ گھسنا اگر مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے غلبہ عطا کیا تو ان کے پیچھے کا قبضہ برقرار رہے گا اور اگر اس کے برعکس ہوا تو بحفاظت اپنے لوگوں کی طرف واپس ہو جائیں گے اور انہیں اپنا راستہ معلوم ہوگا اور اپنی سر زمین پر جرأت کے ساتھ رہیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ دوبارہ انہیں غلبہ عطا فرمائے۔[3] اور شام کی فتوحات میں مسلمانوں کے پیچھے ان کی حمایت کے لیے صحرا کافی تھا لیکن اس کے باوجود مسلمان آگے بڑھنے سے قبل اس بات کا مکمل اطمینان حاصل کرتے تھے کہ دشمن پیچھے سے اچانک حملہ آور ہونے سے ناامید ہو چکا ہے اور پھر دائیں بائیں جو جو شہر اور علاقہ ان کے قبضہ میں آئے ہیں مکمل طور پر ان پر قابض ہو
Flag Counter