Maktaba Wahhabi

431 - 512
لیے شر ہے اور ہمارے لیے خیر ہے۔ یا تو جھوٹا ہے سزا و انجام کے اعتبار سے اللہ کے نزدیک، اور لوگوں کے نزدیک سب سے بڑے جھوٹے بادشاہ ہوا کرتے ہیں۔ ہمیں ہماری عقل جو بتاتی ہے وہ یہ ہے کہ تم ان لوگوں کی طرف مجبور ہوئے ہو تو اللہ کا شکر ہے جس نے تمہارے کید ومکر کو مرغی اور خنزیر کے چرانے والوں کی طرف لوٹا دیا ہے۔[1] اس خط کو پڑھ کر اہل فارس چیخ اٹھے اور اپنے بادشاہ کو ملامت کی اور اس کی رائے کو برا جانا۔ ادھر مثنیٰ رضی اللہ عنہ حیرہ سے بابل کی طرف روانہ ہو گئے اور ’’صراۃ اولیٰ‘‘[2] کی وادی کے پاس دونوں افواج میں ٹکراؤ ہوا اور گھمسان کی جنگ ہوئی۔ ایرانیوں نے گھوڑوں کے درمیان ہاتھی گھسا دیے تاکہ مسلمانوں کے گھوڑے بدک کر منتشر ہو جائیں۔ مسلمانوں کے امیر مثنیٰ رضی اللہ عنہ نے فوراً اس ہاتھی پر حملہ کر کے قتل کر دیا اور مسلمانوں کو حملہ کرنے کا حکم صادر کیا۔ مسلمان ٹوٹ پڑے، ایرانیوں کو شکست فاش اٹھانا پڑی۔ انہیں مسلمانوں نے بری طرح قتل کیا اور بہت سارا مال غنیمت میں حاصل کیا اور ایرانی بھاگ کھڑے ہوئے اور انتہائی بری حالت میں مدائن پہنچے اس وقت کسریٰ مر چکا تھا [3] اور ایران اضطراب اور عدم استقرار کا شکار تھا۔ مثنیٰ رضی اللہ عنہ نے ان اللہ کے دشمنوں کا پیچھا کیا اور مدائن کے دروازوں تک پہنچ گئے اور پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس فتح کی خبر بھیجی اور آپ سے ان لوگوں سے مدد لینے کی اجازت طلب کی جو مرتدین میں شامل ہو چکے تھے لیکن جواب میں تاخیر ہوئی کیونکہ آپ اس وقت شام کی جنگوں کے سلسلہ میں مشغول تھے۔ جب انتظار طویل ہوا تو مثنیٰ رضی اللہ عنہ خود مدینہ روانہ ہوئے اور عراق پر بشیر بن خصاصیہ کو اپنا نائب مقرر کیا اور مسالح پر سعید بن مرہ عجلی کو نائب بنایا۔[4] جب آپ مدینہ پہنچے تو دیکھا ابوبکر رضی اللہ عنہ مرض الموت میں مبتلا ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کا استقبال کیا، آپ کی بات سنی اور آپ کی رائے سے مطمئن ہوئے، پھر عمر رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے فرمایا: عمر! میں جو کہتا ہوں سنو، پھر اس پر عمل کرو۔ مجھے امید ہے کہ آج میں وفات پا جاؤں گا۔ تو اگر میں مر گیا تو تم شام ہونے سے پہلے پہلے لوگوں کو مثنیٰ کے ساتھ تیار کر دینا اور کوئی مصیبت اگرچہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو تمہیں تمہارے دین سے اور تمہارے رب کی وصیت پر عمل پیرا ہونے سے نہ روکے۔ تم نے مجھے دیکھا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت میں نے کیا کیا حالانکہ خلق الٰہی کو اس طرح کی کوئی مصیبت لاحق نہیں ہوئی…… اور اگر شام فتح ہو گیا تو لشکر خالد کو عراق واپس کر دینا کیونکہ وہ اس کے اہل ہیں اور ایرانیوں کے خلاف جری اور بہادر ہیں۔[5] 
Flag Counter