مالک تھے۔ انتہائی خطرناک حالات وظروف میں مکمل ذمہ داری کا ثبوت پیش کرتے۔ آپ کو اپنی فوج پر اور آپ کی فوج کو آپ پر بے حد اعتماد تھا۔ آپ کو ان سے اور ان کو آپ سے انتہائی درجہ محبت تھی۔ آپ قوی شخصیت کے مالک تھے۔ آپ حقیقت میں بالکل ویسے ہی تھے جیسا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اپنے آپ کو امیر بنانے والے۔‘‘[1] یعنی امارت وقیادت کی تمام صلاحیتیں آپ کے اندر موجود تھیں۔ آپ کے اندر انتہائی درجہ کی قابلیت پائی جاتی تھی، جس سے قتال میں آپ کو مدد ملتی، آپ روشن ماضی کے مالک تھے۔ آپ سب سے پہلے حملہ کرنے والے اور سب سے بعد میں لوٹنے والے ہوتے۔ آپ عراق کے علاقوں سے بخوبی واقف اور ایرانیوں کے خلاف انتہائی جری تھے۔ سریع الحرکت اور وسیع حیلہ کے مالک تھے۔ اسلام کے بعد ایرانیوں کے خلاف سب سے پہلے آپ اٹھے اور دوسروں کو بھی ان کے خلاف بیدار کیا اور عراقی جنگ میں آزمائشوں کا سامنا کیا۔ آپ ہی نے مسلمانوں کی ہمت بڑھائی اور ایرانیوں کی ہمت کو پست کیا۔[2] مثنیٰ رضی اللہ عنہ ایرانی فوج کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’میں نے جاہلیت و اسلام میں عرب وعجم سے قتال کیا ہے، واللہ جاہلیت میں سو عجمی (ایرانی) ہزار عربوں پر بھاری تھے اور آج سو عربی ہزار عجمیوں پر بھاری ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی قوت کمزور کر دی اور ان کی چال ناکارہ بنا دی۔ لہٰذا انہیں ان سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے، نہ ان کی کثرت سے نہ ان کے ساز و سامان اور ہتھیاروں سے۔ یہ لوگ تو ایسے ہیں کہ اگر ان سے ہتھیار چھین لیا جائے یا وہ اسے گم پائیں تو ایسی صورت میں یہ چوپایوں جیسے ہیں کہ جس طرف چاہو لے جاؤ۔‘‘[3] ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مثنیٰ رضی اللہ عنہ کو عراق پر امیر مقرر کر کے صحیح مقام پر رکھا تھا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو لوگوں کے مقام، قدر وقیمت اور ان کی صلاحیتوں کی صحیح معرفت تھی۔ جب خالد رضی اللہ عنہ شام کے لیے کوچ کرنے لگے تو ان کو الوداع کہنے نکلے اور جب جدائی کا وقت آیا تو خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ آپ پر رحم فرمائے آپ اپنی امارت پر لوٹ جائیں، سستی اور کوتاہی نہ کریں۔[4] خالد رضی اللہ عنہ کے بعد عراق کی قیادت مثنیٰ رضی اللہ عنہ نے سنبھالی۔ جیسے ہی کسریٰ کو خالد رضی اللہ عنہ کے چلے جانے کی خبر ملی اس نے ہرمز جاذویہ کی قیادت میں ہزاروں فوجی جمع کیے اور مثنیٰ رضی اللہ عنہ کو دھمکی آمیز خط لکھتے ہوئے کہا: میں تمہارے مقابلہ میں فارس کی وحشی فوج کو بھیج رہا ہوں جو مرغیوں اور خنزیروں کو چرانے والے ہیں، میں انہی کے ذریعہ سے تم سے قتال کروں گا۔[5] مثنیٰ رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب عقل وفطانت سے دیا اور اس مجوسی کا جواب دیتے ہوئے اپنی شجاعت کو نہیں بھولے۔ چنانچہ کسریٰ کو خط تحریر کرتے ہوئے فرمایا: تو دو شخصوں میں سے ایک ہے؛ یا تو باغی ہے اور یہ تمہارے |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |