تعاون کی تنسیق اور میدان جنگ میں توازن برقرار رکھنے سے متعلق قرارداد اختیار کرنے پر مرکوز تھی لیکن آپ قائدین کو عسکری عمل میں آزاد چھوڑ دیتے تھے کہ قتال کے لیے جو اسلوب مناسب سمجھیں اختیار کریں اور مدمقابل کے اعتبار سے موقع ومحل جس کا متقاضی ہو وہ طریقہ کار اپنائیں۔[1] مثنٰي بن حارثہ رضی اللہ عنہ کي تواضع وخاکساري:… جہاد عراق کے سلسلہ میں قابل ذکر مؤقف مثنیٰ بن حارثہ شیبانی رضی اللہ عنہ کا ہے۔ وہ اپنی قوم کو لے کر عراق میں دشمنوں سے مصروف قتال تھے۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر ہوئی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں امیر مقرر کر دیا یہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے عراق پہنچنے سے قبل کا واقعہ ہے اور جب ابوبکر رضی اللہ عنہ فارس پر حملہ آور ہونے کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے اس مہم کے لیے خالد رضی اللہ عنہ کو زیادہ موزوں سمجھا اور انہیں اس مہم پر روانہ کیا۔ مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو خط تحریر کیا کہ وہ خالد کے ساتھ شامل ہو جائیں اور ان کی اطاعت کو قبول کریں۔ یہ پیغام ملتے ہی بلا کسی تردد و ہچکچاہٹ کے آپ نے جلدی کی اور خالد رضی اللہ عنہ اور آپ کی فوج سے جا ملے، مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا یہ مؤقف قابل ذکر ہے کہ کثرت فوج اور خالد رضی اللہ عنہ سے قبل لشکر عراق کی امارت سے دھوکا نہ کھائے اور اس کی وجہ سے اپنے آپ کو خالد رضی اللہ عنہ سے زیادہ امارت کا مستحق نہ سمجھا۔[2] جہاد في سبیل اللہ کے سلسلہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کي احتیاط:… ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خالد اور عیاض رضی اللہ عنہما کو جو خط تحریر کیا اس میں یہ تعلیم تھی کہ جن لوگوں نے مرتدین سے قتال کیا اور خود اسلام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ثابت قدم رہے، ان کو جہاد عراق میں ساتھ لے کر نکلیں اور جو لوگ ارتداد کا شکار ہو چکے ہیں ان میں سے کوئی بھی تمہارے ساتھ جہاد میں شریک نہ ہو، یہاں تک کہ میں کوئی دوسرا فیصلہ کروں۔ لہٰذا ابتدائی مہمات میں کوئی مرتد شریک نہ ہوا۔[3] اس کے بعد جب ان کی استقامت ثابت ہو گئی تو بعد کی مہمات میں انہوں نے شرکت کی جیسا کہ عنقریب ان شاء اللہ اس کا ذکر آئے گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ مؤقف جہاد فی سبیل اللہ کے سلسلہ میں احتیاط پر مبنی تھا تاکہ دنیا دار لوگ شریک ہو کر مجاہدین کی ناکامی اور ان کی صفوں میں خلل اور اختلاف کا سبب نہ بنیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ تربیتی درس ہے جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیمتی دروس سے سیکھا تھا کہ اسلامی صف کو ہر طرح کی آلودگی اور عیوب و نقائص سے پاک رکھا جائے اور سب کا ہدف ایک ہو تاکہ یہ عمل خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو اور پھر اس طرح ان خطرناک الٹے نتائج سے محفوظ رہیں جو اہداف کے اختلاف کے سبب رونما ہوتے ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس اہم اور بلند ترین اصول کے بڑے حریص رہے، باوجودیکہ اسلامی فوج کو اس وقت افراد کی سخت ضرورت تھی، جو اس بات پر آپ کی مکمل قناعت کی دلیل ہے کہ اصل اعتبار ہدف کی بلندی اور اخلاص کا ہے، کثرت عدد کا نہیں۔[4] |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |