نمایاں ہیں۔ پھر آپ ان دونوں قائدین میں سے خالد رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے ہیں کہ وہ عراق میں جنوب مغرب سے اس کے نشیبی حصہ ’’اَبلہ‘‘ کے مقام سے داخل ہوں اور عیاض رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے ہیں کہ وہ عراق کے بالائی حصہ شمال مشرق سے ’’مصیخ‘‘ کے مقام سے داخل ہوں اور انہیں حکم دیتے ہیں کہ عراق کے وسط میں پہنچ کر دونوں ایک ساتھ مل جائیں۔ اس کے باوجود یہ حکم دینا نہ بھولے کہ کسی کو فوج میں بھرتی پر مجبور نہ کرنا اور موجودہ لوگوں میں سے کسی کو قتال کے لیے اپنے ساتھ باقی رہنے پر مجبور نہ کرنا۔ آپ کی نظر میں فوج میں بھرتی اجباری نہ تھی بلکہ اختیاری تھی۔[1] فوجي اہمیت کے پیش نظر ’’حیرہ‘‘ کا انتخاب:… ابوبکر رضی اللہ عنہ عسکری اہمیت کے پیش نظر حیرہ پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ حیرہ کوفہ سے جنوب میں تین میل کی مسافت پر واقع ہے اور نجف سے جنوب مشرق میں شہسوار کے لیے ایک گھنٹہ کی مسافت پر پڑتا ہے۔ نقشہ پر نگاہ ڈالنے والا پہلی ہی فرصت میں اس مقام کی فوجی اہمیت کو سمجھ سکتا ہے۔ حیرہ کی حیثیت ایک مرکز اتصالات کی ہے جہاں تمام راستہ آکر ملتے ہیں۔ یہ مشرق میں دریائے فرات کے ذریعہ سے مدائن سے جا ملتا ہے اور شمال میں ’’ہیت‘‘ اور ’’انبار‘‘ سے جا ملتا ہے اور مغرب میں شام سے جا ملتا ہے۔ اسی طرح بصرہ کے علاقہ میں ’’ابلہ‘‘ سے ملتا ہے۔ سواد میں ’’کسکر‘‘ اور دجلہ پر واقع ’’نعمانیہ‘‘ سے جا ملتا ہے۔ اس سے اس مقام پر قبضہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دونوں افواج؛ لشکر خالد اور لشکر عیاض کے لیے اس کو ہدف اور مرکز قرار دے کر بہت صحیح کیا کیونکہ حیرہ عراق کا دل ہے اور مدائن سے قریب تر اہم علاقہ ہے، جو فارسی سلطنت کا پایہ تخت تھا۔ یہ لوگ حیرہ کی جنگی اہمیت کو سمجھتے تھے، اسی لیے وہ اس پر قبضہ بحال کرنے کے لیے برابر فوجی دستے بھیجتے رہتے تھے کیونکہ حیرہ پر جو قابض ہو اس کے لیے فرات کے مغربی علاقہ پر مکمل قبضہ جمانا آسان ہوگا اور پھر شام میں روم سے قتال کرنے میں یہ مقام اسلامی فوج کے لیے اہمیت کا حامل تھا۔[2] فتوحات میں حیرہ تک پہنچنے کے لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی منصوبہ بندی جدید عسکری منصوبے میں چہار جانب سے مختلف افواج سے گھیراؤ کی مہم سے معروف ہے۔ اس سے یہ بات مؤکد ہو جاتی ہے کہ جہاد کے ذریعہ سے فتح عراق اور جزیرئہ عرب کے مختلف اطراف کو ضم کرنے کی مہم محض اچانک وقوع پذیر ہونے والی یا حادثات کا نتیجہ نہ تھی۔[3] ریسرچ اور تحقیق کرنے والوں کے لیے جہادی منصوبہ بندی کے سلسلہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فقاہت اور فہم وفراست نمایاں ہوتی ہے کہ فوج کی تنظیم، اس کی رہنمائی اور اس کے واجبات واہداف کی تحدید اور ان کے درمیان |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |