Maktaba Wahhabi

387 - 512
آسان نہیں اور دوسری طرف مسلمانوں پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ قبائل شام کے عرب نصاریٰ کا دل رومیوں کے ساتھ ہے اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے فوراً بعد بذات خود امرائے شام اور اتباع روم کے ساتھ معاہدہ کر چکے تھے لیکن رومی اسلامی سلطنت کے ساتھ چھیڑ خانی اور اس کے پر وبازو کترنے کی کوشش سے باز آنے والے نہ تھے اور پھر ان کا اوّلین مقصد اسلامی سلطنت کا صفایا کرنا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس سے اچھی طرح واقف تھے جو لشکر اسامہ کو روانہ کرنے پر اصرار سے بالکل واضح ہے۔ اور جزیرئہ عرب کے شمال میں آباد قبائل عرب، لخم، غسان، جذام، بلی، قضاعہ، عذرہ اور کلب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیے گئے عہد وپیمان کو توڑنا چاہا۔ اور رومی سلطنت کے علاوہ اور کون تھا جو انہیں اسلحہ، افراد، مال اور جنگی منصوبے عطا کرتا؟ ان حالات میں لشکر اسامہ کو روانہ فرما کر بزبان حال رومیوں سے کہنا چاہتے تھے کہ باوجودیکہ میرے ملک کے اندر بعض قبائل عہد و پیمان کو توڑ چکے ہیں لیکن اس سے ہم مسلمانوں کی قوت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اور ہم اس بات پر قادر ہیں کہ سب سے بڑے عالمی حملہ کو روک دیں اگرچہ وہ حملہ تمہاری طرف سے کیوں نہ ہو۔[1] جزیرئہ عرب میں نقض عہد کی لہر سے فارس و روم پرامید ہو گئے کہ عرب اب اسلام کا صفایا کر دیں گے اور روم و فارس نے اسلامی حکومت کے خلاف باغیوں سے بھرپور تعاون کیا اور فرار ہونے والوں کو پناہ دی۔ ابھی مسلمان جزیرئہ عرب کو اسلام کے پرچم تلے متحد کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تھے کہ شمال کی جانب دو بڑے دشمنوں سے ٹکرانے کا وقت آگیا جو اسلام کے خلاف گھات لگائے ہوئے تھے۔[2] ابوبکر رضی اللہ عنہ مرکز قیادت مدینہ منورہ سے حرکت میں آئے اور وہاں سے اسلامی افواج کو روانہ کیا اور ہر طرح کے جنگی سازوسامان سے ان کو مسلح کیا، جس سے دشمن ہیبت زدہ اور مرعوب ہو سکتے تھے۔ اس طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ مرکز قیادت جزیرئہ عرب میں خیر کو عام کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اگر آپ مرکز قیادت جزیرئہ عرب میں امن کو بحال نہ کر لیتے تو شام وعراق کی فتح کے لیے نکلنا ممکن نہ ہوتا۔ مرکز کا امن تین درجات میں نمایاں رہا: خلیفہ کا جہاد جاری رکھنے کا عزم اور اپنی فکری صلاحیت اور اس کے ممتاز ہونے پر گہرا اور مضبوط ایمان اور اس کے ذریعہ سے غلبہ و سربلندی کے حصول کی طلب۔ مہاجرین و انصار کے مدنی معاشرہ کی نظافت وپاکی۔ عربی معاشرہ کا شرک کی گندگیوں اور ارتداد کے امراض سے پاک ہونا۔ یہ تینوں درجات ایک دوسرے کے لیے سہارا بنے، جس کی وجہ سے اسلام کی عمارت بلند اور قوی تر ہوئی اور آپ نے عراق وشام کے اڈوں کو اس طرح نیست و نابود کیا کہ روم وفارس کی سلطنتیں تھوڑی ہی مدت میں ہل گئیں اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ جزیرئہ عرب سے نکلنے والی اسلامی افواج وحدت صفت، وحدت فکر اور وحدت علم کی حامل
Flag Counter