العاص رضی اللہ عنہ کو شام کے حدود پر ’’حمقتین‘‘ کی طرف لشکر کے ساتھ روانہ کیا اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو تبوک اور دومۃ الجندل کی طرف روانہ کیا اور علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو بحرین کی طرف روانہ فرمایا۔ پھر مثنیٰ بن حارثہ شیبانی بحرین کے ارتداد پر قابو پانے کے بعد جنوبی عراق کی طرف روانہ ہوئے اور سجاح جو عراق کے عرب نصاریٰ سے تعلق رکھتی تھی جب اس نے مسلمانوں کی قوت کا مشاہدہ کیا تو عراق کی طرف لوٹنے پر مجبور ہوئی جو اس وقت فارس کے زیر تسلط تھا۔ مسلمان اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں انتہائی بیدار تھے۔ انہوں نے شمالی حدود کی حفاظت بڑی باریکی اور اہتمام سے کی، ہم مشرق سے لے کر مغرب تک فارس و روم کے حدود پر علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ ، اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو نجد کے شمال میں پاتے ہیں، پھر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو دومۃ الجندل میں اور خالد بن سعید رضی اللہ عنہ کو شام کی حدود پر پاتے ہیں اور لشکر اسامہ تو اپنی جگہ مسلم ہے ہی۔[1] اہل فارس اسلام کو زک پہنچانے کے انتظار میں تھے لیکن وہ سانپ کی طرح اپنے آپ کو چھپائے ہوئے تھے۔ خاص کر جب کہ وہ یہ مشاہدہ کر رہے تھے کہ اسلامی سیلاب اپنے سامنے سے تاریخ کے خس و خاشاک کو بہائے لیے جا رہا ہے اور شر و طغیان کی تمام قوتوں کو اٹھا پھینک رہا ہے اور جب یہ موقع آیا کہ بعض قبائل اسلام سے ارتداد کا شکار ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قبیلہ بکر بن وائل نے کسریٰ کے پاس پہنچ کر بحرین کی امارت کی پیش کش کی۔ ان کی یہ پیش کش قبولیت سے ہمکنار ہوئی اور اس نے ان کے ساتھ منذر بن نعمان کی قیادت میں سات ہزار شہسوار و پیادہ فوج مسلمانوں کے خلاف ان کی مدد کے لیے بھیجی۔[2] اور مسیلمہ کذاب کی طرف امرائے فارس کی نگاہیں لگی ہوئی تھیں۔[3] ڈاکٹر محمد حسین ہیکل نے بیان کیا ہے کہ سجاح نے جو شمالی عراق سے اپنی جماعت کے ساتھ جزیرئہ عرب کی طرف رخ کیا وہ اہل فارس اور عراق میں ان کے والیان کی تحریض کا نتیجہ تھا تاکہ عرب میں فتنہ کی آگ بھڑکائیں۔[4] فارس نے یہ کردار اختیار کیا اور روم کا کردار اس سے کہیں خطرناک اور نمایاں تھا۔ یہ اس وجہ سے کہ روم کا مؤقف اسلام اور حکومت اسلام کے خلاف انتہائی سخت تھا کیونکہ رومی فکر وعقیدہ اور ترقی یافتہ نظام و قوانین کے مالک تھے۔ ان کے پاس نہ ختم ہونے والا سامان حرب اور نفری قوت موجود تھی اور بے شمار ممالک ان کے حلیف اور تابع تھے۔ اس لیے ان کے اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات بالکل ابتدائی دور سے انتہائی درجہ کشیدگی کا شکار تھے۔[5] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط پہنچنے کے بعد ہی سے رومیوں نے مسلمانوں کے ساتھ ٹکرانے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ جس کے نتیجہ میں موتہ اور تبوک کے غزوات پیش آئے، جس نے مادی طور پر یہ ثابت کر دیا کہ اسلامی سلطنت کو نگلنا اور اس کے افراد کو خریدنا |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |