Maktaba Wahhabi

345 - 512
اسلام کو قوت و عزت ملی اور شرک اور مشرکین ذلیل وخوار ہوئے۔[1] اگر مرتدین کے حق میں خارجی دخل اندازی نہ ہوتی تو طویل عرصہ تک مرتدین مسلمانوں کے مقابلہ میں مؤقف اختیار کرنے کی جرأت نہ کرتے لیکن اہل فارس نے مرتدین کو نو ہزار مقاتلین کی امداد بھیجی۔ عرب مرتدین کی تعداد تین ہزار تھی اور مسلمانوں کی تعداد چار ہزار تھی۔[2] بحرین میں فتنہ ارتداد کی آگ بجھانے میں مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے بہت بڑا کردار ادا کیا۔ اپنی فوج کے ساتھ علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا۔ اپنی فوج کے ساتھ بحرین سے شمال کی طرف روانہ ہوئے، قطیف اور ہجر پر قبضہ جمایا اور دجلہ کے دہانے تک پہنچ گئے۔ اپنے اس مشن میں لگے رہے، یہاں تک کہ فارسی فوج اور ان کے عمال پر غالب آئے جنہوں نے بحرین کے مرتدین کی مدد کی تھی۔ مرتدین سے قتال کے لیے ان علاقوں میں جو لوگ اسلام پر ثابت قدم رہے تھے انہیں لے کر علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شامل ہو گئے۔ ساحل کے ساتھ شمال کی طرف بڑھتے رہے، یہاں تک کہ دجلہ وفرات کے ڈیلٹا میں آباد عرب قبائل کے پاس پہنچ گئے، ان سے بات چیت کر کے ان سے معاہدہ کر لیا اور جس وقت خلیفہ رسول ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں دریافت کیا تو قیس بن عاصم مِنْقری رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ کوئی غیر معروف، مجہول النسب اور غیر شریف انسان نہیں، وہ تو مثنیٰ بن حارثہ شیبانی ہیں۔[3] ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے لیے حکم صادر فرمایا کہ وہ عراق میں عربوں کو اسلام کی دعوت جاری رکھیں۔ مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے جو کارنامے انجام دیے، انہیں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فتح عراق کے سلسلہ میں پہلا قدم قرار دیا اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اسلامی فوج کی قیادت کے لیے وہاں بھیج کر فیصلہ کن قدم اٹھایا۔[4] ابوبکر رضی اللہ عنہ موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے طاقتوں کو تیار کرتے اور ہمتوں کو برانگیختہ کرتے تاکہ اچھے اور بلند نتائج حاصل ہوں اور لوگوں کے اندر پوشیدہ قوتوں کو کام میں لاتے اور ان کو اس طغیان اور سرکشی کو کچلنے کے لیے تیار کرتے جس نے زعمائے کفر وطغیان کے سروں میں بسیرا کر رکھا تھا۔[5] 
Flag Counter