Maktaba Wahhabi

220 - 523
سے باقی معاشرے سے اس کا گناہ اور ذمے داری ساقط ہوجاتی ہے۔ وگرنہ ہم اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان کے مصداق بن سکتے ہیں: { وَ مَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّ اَھْلُھَا مُصْلِحُوْنَ} [ھود: ۱۱۷] ’’اور تیرا رب ایسا نہ تھا کہ بستیوں کو ظلم سے ہلاک کر دے، اس حال میں کہ اس کے رہنے والے اصلاح کرنے والے ہوں۔‘‘ یہ نہیں کہا: ’’وأھلھا صالحون‘‘ کہ اس کے رہنے والے صالح ہوں کیونکہ صرف صالح ہونا اﷲ تعالیٰ کی شدید ترین سزا سے نجات نہیں دے سکتا۔ مسلمانوں میں نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے منع کرنے والے حقیقت میں انبیائے کرام کا کام کرنے والے ہیں، جو وہ اپنی قوموں میں کیا کرتے تھے۔ جس قدر زیادہ لوگ ان کی نصیحت قبول کریں گے اسی قدر زیادہ نجات حاصل ہوگی اور حجت قائم ہوجائے گی، اور جس قدر کم لوگ نصیحت قبول کریں گے نجات کا تناسب بھی اسی قدر کم ہوجائے گا۔ { وَ مَا کَانَ رَبُّکَ مُھْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّھَا رَسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِنَا وَ مَا کُنَّا مُھْلِکِی الْقُرٰٓی اِلَّا وَ اَھْلُھَا ظٰلِمُوْنَ} [القصص: ۵۹] ’’اور تیرا رب کبھی بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہیں، یہاں تک کہ ان کے مرکز میں ایک رسول بھیجے جو ان کے سامنے ہماری آیات پڑھے اور ہم کبھی بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں مگر جبکہ اس کے رہنے والے ظالم ہوں۔‘‘ مسلمانوں کے درمیان نصیحت کا فقدان یہودانہ علامت اور ان کی مستقل برائیوں میں سے ایک برائی ہے۔ ہفتے کے دن شکار کرنے کے لیے انھوں نے جو حیلہ سازی کی اس کے متعلق ان کے خیالات معروف و مشہور ہیں، یہاں تک کہ نافرمانوں نے شکار کا اعلان کر دیا، ان میں ایک گروہ ان کے خلاف کھڑا ہوگیا، انھوں نے کھلے عام ان کو منع کیا اور ان سے علیحدگی اختیار کر لی، جبکہ دوسرے گروہ نے انھیں منع کیا نہ خود نافرمانی کی بلکہ منع کرنے والوں سے کہا: { لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَا نِاللّٰہُ مُھْلِکُھُمْ اَوْ مُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا قَالُوْا مَعْذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمْ وَ لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ} [الأعراف: ۱۶۴]
Flag Counter