Maktaba Wahhabi

426 - 523
ہے۔ یہ دلوں کی آبادکاری اور گناہوں کی بربادی کا مہینہ ہے۔ ہر خوفزدہ اور سہمے ہوئے کی امیدوں کا دروازہ، آنسوؤں، آہوں، سسکیوں اور اندیشوں کا مہینہ۔ اس مہینے میں کتنے ہی عاجز اور کمزور ہاتھ گریہ زاری کرتے ہوئے اٹھے، پھر آنکھوں سے گرما گرم آنسوؤں کی قطاریں لگ گئیں، دل خوف و خشیت سے کانپ اٹھے، حساس ترین جذبات اور فیاضانہ احساسات بپھری ہوئی موجوں کی طرح اچھل پڑے اور پھر کیسے کیسے اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر جود و کرم اور رحمت و مغفرت کے بادل برسائے؟ جہنم سے آزادی کے پروانے جاری کیے، خصوصاً اس مہینے کے آخری ایام اور گزرتی ہوئی ساعتوں میں! حرماں نصیب: اﷲ کے بندو! جس کی اس مہینے میں بھی بخشش نہ ہوئی تو پھر کب ہوگی؟ جسے لیلۃ القدر میں رد کر دیا گیا وہ کب قبول کیا جائے گا؟ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ وہ رمضان کی آخری شب اعلان کیا کرتے تھے: ’’کاش! مجھے علم ہوجاتا آج کون اﷲ کی بارگاہ میں مقبول ہوا ہے اور میں اسے مبارکبار دیتا اور کون محروم ہوچکا کہ میں اس سے تعزیت کرتا۔‘‘ اے مقبولانِ بارگاہ ربانی! مبارکباد ہو۔ اے راندہ درگاہ باری عزوجل! اﷲ تمھاری مصیبت کاٹے! جو رمضان کی خیر سے محروم ہوگیا اس کے پاس کیا بچا؟ جس نے رمضان میں صرف حرمان نصیبی کو پایا اس نے کیا کمایا؟ جو اﷲ کے ہاں مقبول ہوا اور بخشش کا حق دار ٹھہرا اور جو ناکامی اور خسارے سے دوچار ہوا، دونوں میں کس قدر فرق ہے! چہ نسبت خاک را بآسمان پاک! جو رمضان میں بھی نیک نہیں ہوا وہ کب نیک ہوگا؟ جو جہالت اور غفلت کی دو بیماریوں کا شکار ہے وہ کب تندرست ہوگا؟ ترحل الشھر والھفاہ وانصرما واختص بالفوز بالجنان من خدما ’’مہینہ تو کوچ کر گیا، وائے حسرت! جس نے اس کی خدمت کی اسے کامیابی کی صورت میں جنت کے ساتھ خاص کر گیا۔‘‘
Flag Counter