Maktaba Wahhabi

213 - 523
ڈرتے، پس لازم ہے کہ وہ اﷲ سے ڈریں اور سیدھی بات کہیں۔‘‘ کیا یہ امن برباد کرنے والا بالکل نہیں سوچتا کہ وہ کس طرح طاقت کے بجائے کمزوری، خوشی کی جگہ غم اور پاکیزگی کے بدلے ناپاکی کا شکار ہوچکا ہے؟! کوئی اس کا ہمدرد اور غم خوار نہیں جس کے سامنے وہ اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ سکے، ایک مسلسل پریشانی اسے خوف میں مبتلا رکھتی ہے، اور وہ بکثرت غیر ارادی حرکات کرتا رہتا ہے، پھر جب وہ اپنے شاذ اور منحرف فعل کی وجہ سے زندگی سے اکتا جاتا ہے تو پھر اس کے بعد اس کے لیے گوہر مقصود تک پہنچنا ناممکن ہوجاتا ہے جیل کی کال کوٹھڑی میں لڑتا رہتا ہے، دل طرح طرح کے وسوسوں کا شکار رہتا ہے، ہر وقت سزا کا خیال دامن گیر رہتا ہے، خصوصاً جب یہ سزا موت کی ہو۔ اس میں کوئی حیرت نہیں کیونکہ ایک مجرم کا قتل ساری امت کے سکھ کی زندگی کا ضامن ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: { وَ لَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰاُ۔ٓولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} [البقرۃ: ۱۷۹] ’’اور تمھارے لیے بدلہ لینے میں ایک طرح کی زندگی ہے، اے عقلوں والو! تاکہ تم بچ جاؤ۔‘‘ ایک پرانی عربی کہاوت ہے: ’’القتل أنفی للقتل‘‘ یعنی قتل ہی سب سے زیادہ قتل کو روک سکتا ہے۔ شرعی سزائیں۔۔۔ امن کی ضامن: اہل اسلام! معاشروں میں امن برقرار رکھنے کے لیے شریعت مطہرہ نے شدید ترین سزائیں مقرر کی ہیں اور امت کے ان تمام وسائل میں حقوق العباد کے متعلقہ ہر چیز کی حفاظت کی ہے، بلکہ شریعت میں یہ ایک مسلّمہ مسئلہ ہے کہ ان سزاؤں پر عملدار آمد کروانے کے سلسلے میں ہر طرح کی سستی کے ہر ذریعے کو بند کر دیا گیا ہے، چاہے یہ سستی اور غفلت ان سزاؤں کو معطل کروانے کے لیے درمیانی واسطے کی تلاش کی صورت میں ہو یا متمدن معاشروں کی تنقید کے ڈر سے۔ امن و امان کی حفاظت کی خاطر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پر شدید غصے کا اظہار کیا جس نے معاملہ سلطان کے سامنے پیش ہوجانے کے بعد اﷲ تعالیٰ کی کسی حد میں سفارش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:
Flag Counter