Maktaba Wahhabi

165 - 523
سفر حدود کی حفاظت کرنے والے اسلامی ممالک تک ہی محدود رہنا چاہیے لیکن ایسے ممالک کی طرف عازم سفر ہونا جو گندگیوں کے جوہڑ، شک کے بھنور اور ثقافتی اعتبار سے وباآلود علاقے ثابت ہوں وہاں جانا، جب تک کوئی خاص ضرورت نہ ہو، جائز نہیں لیکن اسلامی شعائر کے اظہار کی قدرت ہونا بہر نوع از حد ضروری ہے۔ کیا جنگلی درندوں سے بھرے ہوئے جنگل میں کوئی امانت سے لدے ہوئے اونٹ پھینک جاتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے: (( أنا برئ من رجل یبیت بین ظھراني المشرکین )) [1] ’’میں اس آدمی سے بری الذمہ ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے۔‘‘ اہل علم اس سے صرف اس مریض کو مستثنیٰ خیال کرتے ہیں جو بغرض علاج ایسے ممالک کی طرف سفر کرنے پر مجبور ہو۔ سیاحت کے مقاصد: ۶۔ اللہ تمہاری حفاظت کرے! تم لوگ کیا جانو سیاحت کی حقیقت کیا ہے؟ یہ ایک خوشنما لفظ اور دلکش عبارت ہے، اس کے اپنے شرعی تقاضے ہیں، سلف صالحین زمین کے مشرق ومغرب میں جہاد فی سبیل اللہ، اپنے اقوال وافعال، کردار اور حسن سلوک کے ذریعے دعوت دین پھیلانے کے لیے گھومتے۔ اس اعلی شرعی مقصد کے لیے تو سیاحت سے فائدہ اٹھانا کیا خوب ہے! سیر وسیاحت کے اس پاک صاف، اجلے ہوئے اور شرعی ضوابط کی قید میں مقید مفہوم کے ہم سب مؤید ہیں اور اس کی پر زور حمایت کرتے ہیں۔ لیکن غم کی لہریں تو دل میں اس وقت اٹھتی ہیں جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ امت میں اندرورنی طور پر شکست خوردہ ایسے افراد زیادہ ہوچکے ہیں جو مغربی ثقافت کے اتنے جام چڑھا چکے ہیں کہ اس کے نشے میں مست رہتے ہیں۔ اور بربنائے غلط وہ یہ سوچ رکھتے ہیں کہ سیر وسیاحت صرف کالے دنوں، سرخ راتوں، فضائل کو لات مارکر، حیا کو پس پشت ڈال کر، رسوائیوں کا اعلان کر کے اور برائیوں کا اظہار کر کے ہی ممکن ہے جبکہ صاحب ایمان افراد اور اخلاق وکردار کی پاسداری کرنے والے معاشرے نہ اس بات کو
Flag Counter