Maktaba Wahhabi

347 - 523
ہوئے راہِ اعتدال اختیار کرنے کا حکم فرمایا۔ جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے بھی ارشاد فرمایا ہے : { کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا} [البقرۃ: ۱۴۳] ’’اور اسی طرح (اے مسلمانو!) ہم نے تمھیں امتِ وسط بنایا ہے۔‘‘ یہ شریعتِ اسلامیہ کا ایک خاص امتیاز ہے اور یہی وہ حق و عدل ہے جس پر چلنا اور جسے اپنا منہج بنانا واجب ہے، جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے: { فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَکَ وَ لَا تَطْغَوْا اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ } [ھود: ۱۱۲] ’’آپ بھی استقامت اختیار کریں جیسا کہ آپ کوحکم دیا گیا ہے اور وہ بھی جو آپ کے ساتھ تائب ہوئے اور سرتابی نہ کرنا کیونکہ وہ تمھارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔‘‘ صدقِ ایمان اور دلائل توفیق میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ بندہ اپنی پوری زندگی اور ہر طرح کے حالات میں اللہ کے دین اور اس کی شریعت پر قائم رہے، حالات اچھے ہوں یا بُرے، تنگی ہو یا فراخی، دین کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ سعادت وخوشی پر مبنی اچھے حالات ہوں تو ان پر اللہ کا شکر ادا کرے اور بڑھ چڑھ کر اس کی عبادات بجا لائے، اور اگر کبھی بُرے حالات کا سامنا کرنا پڑ جائے تو اللہ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے صبر و ہمت کا مظاہرہ کریں اور رسولِ ہدایت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہج پر رہیں کہ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود چلتے رہے اور جس کی طرف اپنی امت کی راہنمائی فرمائی۔ فتنے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیاں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر خیر و شرّ کی خبر دے گئے ہیں حتی کہ قیامت تک امت کو کون سے حادثات و حالات سے دو چار ہونا پڑے گا ان کی بھی پیشین گوئی فرمائی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتا کر گئے ہیں کہ کون کون سے زبردست فتنے سر اٹھائیں گے؟ کون کون سے مصائب و مشکلات رونما ہوں گی؟ جن کے سلسلہ میں حقائق میں التباس پیدا ہو جائے گا، مفاہیم و مطالب میں اختلاط ہو جائے گا اور پیمانے بدل جائیں گے، نتیجہ یہ ہو گا کہ مخلوق کا ایک بڑا حصہ ہلاک ہو جائے گا، اور اہلِ عقل و بصیرت حیران رہ جائیں گے کہ کیا کریں ؟ ان فتنوں کے پیچھے کفار گھات لگائے بیٹھے ہونگے، ان کے دل مسلمانوں کے خلاف حسد و بغض اور کینہ و حقد سے ابل رہے ہوں گے، اور ان فتنوں کی آگ کو مزید بڑھکانے
Flag Counter