Maktaba Wahhabi

54 - 523
ان کے پاؤں کے پیچھے پیچھے لگا رہے تھے اور کہنے لگے: (( یا رسول اللّٰه، لو نظر أحدھم إلی موضع قدمیہ لأبصرنا )) ’’اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر ان میں کوئی اپنے قدم رکھنے کی جگہ پر جھانک لے تو ہمیں دیکھ لے گا۔‘‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جواب دیا وہ اﷲ تعالیٰ کی مدد پر پختہ یقین کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ فرمایا: (( یا أبا بکر ما ظنک باثنین للّٰه ثالثھما؟ )) [1] ’’ابوبکر! ان دو کے بارے میں تمھارا کیا گمان ہے جن کا تیسرا اﷲ تعالیٰ ہے؟‘‘ اﷲ اکبر! اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں پر کس قدر مہربان ہے؟ پھر اپنے اولیاء کی کہاں کہاں تک مدد کر دیتا ہے؟ یہاں امت کے مبلغین اور اصلاح پسند افراد کے لیے اہم سبق پنہاں ہے کہ اندھیرا، خواہ کتنا ہی گہرہ اور کثیف ہوجائے، اﷲ تعالیٰ کا وعدہ لا محالہ آنے والا ہے، جیسا کہ فرمایا: { حَتّٰی اِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَ ظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ قَدْ کُذِبُوْا جَآئَ ھُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّیَ مَنْ نَّشَآئُ وَ لَا یُرَدُّ بَاْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ} [یوسف: ۱۱۰] ’’یہاں تک کہ جب رسول بالکل ناامید ہوگئے اور انھوں نے گمان کیا کہ بے شک ان سے یقینا جھوٹ کہا گیا تھا تو ان کے پاس ہماری مدد آگئی، پھر جسے ہم چاہتے تھے وہ بچا لیا گیا اور ہمارا عذاب مجرم لوگوں سے ہٹایا نہیں جاتا۔‘‘ عقیدہ توحید؛ ایک مضبوط ترین بندھن: ہجرت نبویہ کے اسباق میں سے ایک یہ سبق بھی ملتا ہے کہ عقیدہ توحید ہی وہ بندھن اور تعلق ہے جس کے سامنے قومیت پرستی، قبائلی امتیازات اور گروہی تعلقات ماند پڑ جاتے ہیں۔ امت کی بزرگی اور عظمت کا استحقاق اس کے عقیدے کی طرف نسبت اور مبادیات کے ساتھ گہرے تعلق کا مرہون منت ہے۔ اہل اسلام! یہ باتیں اس زمانے میں کہی جا رہی ہیں جب امت میں شکست خوردہ اور کم ہمت افراد کی بہتات ہوچکی ہے، ملحدانہ افکار کے طوفان اٹھ رہے ہیں، ہم عصر جھوٹے اور جعلی اصول و
Flag Counter