Maktaba Wahhabi

442 - 523
سے اچھا کون ہو سکتا ہے جو سن کر یا جان کر عمل کے لیے کمر بستہ ہوجائے؟ تم نے رمضان میں عبادت کا لطف اٹھایا اور اللہ کے قرب سے لذت آشنا ہوئے، لہٰذا اس صفائے باطن کو گندہ نہ کرو، سعادت کو شقاوت میں نہ بدلو اور قرب کو دوری کا سبب نہ بناؤ۔ ہر وقت فرمانبرداری پر قائم رہنا یا بار بار اس میں سستی کا شکار ہونا دونوں کا اثر انسان کے دل پر ہوتا ہے کیونکہ دل دیگر اعضا میں سے سب سے زیادہ تبدیلی کا شکار ہوتا ہے حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إنما سمي القلب من تقلبہ، إنما مثل القلب کمثل ریشۃ في أصل شجرۃ یقلبھا الریح ظھراً علی بطن )) [1] ’’دل کو قلب اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ پھرتا ہے۔ دل کی مثال درخت کے نیچے پڑے ہوئے اس پتے کی سی ہے جسے ہوا الٹ دیتی ہے۔‘‘ اس لیے آپ یہ دعا کیا کرتے تھے: (( یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلٰی دِیْنِکَ )) [2] ’’اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھنا۔‘‘ عید عبادت اور دل بستگی کا بہترین موقع ہے: اس کے بعد اے بندۂ الٰہی! اللہ تمھاری حفاظت فرمائے۔ تیرے نفس کا تجھ پر یہ حق ہے کہ تو اس کی عید پر خوش ہو۔ اللہ تعالیٰ نے خوشی اور تفریح کو رضا اور یقین میں رکھا ہے جبکہ غم اور رنج کو شک اور ناراضی میں رکھا ہے۔ اللہ کے بندو! زندگی سے ناراض رہنے والا حقیقت میں اکثر اوقات نا سمجھی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ دنیا اس کی آنکھوں میں ایسے تنگ ہو جاتی ہے جیسے سوئی کا ناکا، یہاں تک کہ اسے شدتِ غم سے اپنی موت نظر آتی ہے۔ اور عید، اے اللہ کے بندو! اہل خانہ، معاشرے اور ابلاغ کے لیے شور و غل سے خالی ایک پرسکون تفریح اور دل بہلانے کا موقع ہے۔ حدود سے تجاوز شکر نہیں: جب لوگ عید کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں، حرام کھیل کود
Flag Counter