Maktaba Wahhabi

507 - 523
{ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ} [البقرۃ: ۱۳۶] ’’ہم ان میں سے کسی ایک کے درمیان فرق نہیں کرتے۔‘‘ اس کے ساتھ ساتھ گفت و شنید کرنے اور قائل کرنے کے قاعدے کو اپنانے پر بھی زور دیا گیا ہے: { اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ} [یونس: ۹۹] ’’تو کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا، یہاں تک کہ وہ مومن بن جائیں؟‘‘ نیز فرمایا: { وَ لَا تُجَادِلُوْٓا اَھْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ} [العنکبوت: ۴۶] ’’اور اہل کتاب سے جھگڑا نہ کرو مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہو۔‘‘ اس بات کی بڑی تاکید کی گئی ہے کہ ان کے معبودوں کو سب و شتم نہ کر کے سد ذرائع کے قاعدے کو اپنایا جائے، یہاں تک کہ ان کو بھی وہ حق حاصل ہوجائے جو ہمیں حاصل ہے، اور جو ہم پر لازم ہے وہی ان پر بھی لازم آئے، اس کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ کریمانہ معاملہ کرنے، اچھی ہمسائیگی اختیار کرنے اور معروف کے مطابق ان کے ساتھ رہن سہن پر بھی بڑا زور دیا گیا ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوسی اہل کتاب بھی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ ملتے، ہمیشہ ان کے ساتھ اچھائی کرتے اور ان کے تحفے قبول فرماتے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اہل ایلیا کے نام خط ایک شاندار نمونہ ہے جو ہماری اسلامی تہذیب کے اثرات کا انتہائی گہرا نتیجہ پیش کرتا ہے، اس حکم نامے کے مطابق آپ رضی اللہ عنہ نے ان کو ان کی جانوں، مالوں اور عبادت خانوں کی امان دی، اور ان کی شرائط قبول کیں کہ ان کے ساتھ کسی یہودی کو نہیں بسائیں گے۔ مسلمانوں کے یہ معاملات دیکھ کر انصاف پسند غیر مسلموں کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ قوموں نے آج تک نہ عربوں جیسے مہربان اور روادار فاتحین دیکھے ہیں اور نہ کوئی ایسا دین دیکھا ہے جو ان کے دین سے بڑھ کر روادار ہو۔ ’’والفضل ما شھدت بہ الأعداء‘‘ اور کمال تو وہ ہے جس کی دشمن بھی گواہی دیں! جنگی اخلاقیات: اے امت اسلام! ہماری اسلامی تہذیب کا ایک اور بھی روشن پہلو ہے، اور وہ ہمارا ’’جنگی
Flag Counter