Maktaba Wahhabi

67 - 523
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: { وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَ ھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ} [آل عمران: ۱۶۱] ’’اور جو خیانت کرے گا قیامت کے دن لے کر آئے گا جو اس نے خیانت کی، پھر ہر شخص کو پورا دیا جائے گا جو اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ مشکوک رزق کا ترک کرنا موجبِ سعادت ہے: اﷲ کے بندو! یہ ذہن نشین رہے کہ بندے کی کامیابی، سعادت اور توفیق کی یہ علامت ہے کہ وہ خبیث رزق اور ناجائز کاروبار سے رک جائے۔ جو مشکوک ہو اسے بھی چھوڑ دے تاکہ اپنے دین اور عزت کو محفوظ کر سکے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جو مشکوک کاموں سے بچ گیا تو اس نے اپنا دین اور عزت بچا لی۔‘‘[1] جامع ترمذی اور ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی اس وقت تک متقین کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا جب تک اس کو بھی نہ چھوڑ دے جس میں کوئی حرج نہ ہو، تاکہ جس میں کوئی حرج ہو اس سے بھی بچ جائے۔‘‘[2] حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’تقویٰ تب تک متقین کے ساتھ رہا جب تک انھوں نے بہت ساری حلال چیزوں کو بھی اس خوف سے چھوڑے رکھا کہ کہیں یہ حرام نہ ہوں۔‘‘[3] بندگانِ رحمن! یہ بھی یاد رکھو کہ مشکوک کاموں اور مشتبہ چیزوں کی وجہ سے دل مضطرب رہتا ہے اور وہ ہر وقت شک اور یقین کے دوراہے پر کھڑا رہتا ہے، جبکہ پرہیزگار آدمی مشکوک معاملات میں توقف کرتا ہے، جس پر دل مطمئن ہو اسے اپنا لیتا ہے اور جس پر دل مطمئن نہ ہو اسے چھوڑ دیتا ہے۔ یہی صالحین کا مذہب اور متقین کا مسلک ہے۔
Flag Counter