Maktaba Wahhabi

144 - 523
درمیان فعل اور ردفعل کا تجزیہ بھی کرنا چاہیے، اور یہ بھی بیان کرنا چاہیے کہ ان پیداواری قوتوں اور صلاحیتوں کو، جو خاندانوں اور معاشروں کے لیے دین و دنیا میں مفید ثابت ہوں، جلا بخشنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کا کیا اثر ہے؟ مسلمان ہونے کے اعتبار سے یہ ہم سب کی اجتماعی ذمے داری ہے کہ ہم ممکن حدتک غیرصحت مند تفریح میں یا ایسے کام میں جس کا گناہ اس کے فائدے سے بڑھ کر ہو، وقت ضائع کرنے سے بچیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ تفریح کے نام پر اپنی رسی بالکل کھلی نہ چھوڑدیں کہ وہ سنجیدہ عمل اور با مقصد بیداری کی راہ میں رکاوٹ بن جائے، اور نہ فرائض سے منہ موڑا جائے، یا اس میں اس قدر انہماک پیدا کرلیا جائے کہ فرائض اور حقوق کی بھی کچھ پرواہ نہ رہے، کیونکہ سنجیدہ کاموں کے درمیان تفریحِ طبع کی اجازت صرف ایک طرح کی معاونت اور حق کے بوجھ اٹھانے کے لیے ہمت بندھنا، اس کی تکالیف پر صبر پیدا کرنا اور یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ سنجیدہ کاموں کو لہو و لعب اور تفریحی امور پر فوقیت حاصل ہے۔ اس مفہوم کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو سمجھنا چاہیے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حنظلہ بن عامر سے فرمایا تھا جب انھوں نے یہ شکایت کی تھی کہ ان کا کچھ وقت بچوں اور بیویوں کے ساتھ خوش طبعی میں گزر جاتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( ولکن ساعۃ و ساعۃ )) [1] ’’لیکن وقت وقت کی بات ہے۔‘‘ لیکن اگر تفریحِ نفس صبح شام اور خلوت و جلوت میں زندگی کا شعار اور اس میں ایک بنیادی معاشرتی فکر بن جائے تو پھر یہ اپنے مقصد اور فطرت سے انحراف کی راہ پر چل نکلتی ہے اور زندگی کو فضولیات اور بربادی کی شاہراہ پر گامزن کردیتی ہے۔ تفریح کے وقت تفریح، کام کے وقت کام: اس لیے ایک سنجیدہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے دل لگی اور تفریح کے لیے کچھ وقت مقرر کرے اور کام اور محنت کے اوقات متعین کرے نہ کہ اس کے عکس رویہ اختیار کرے۔ خصوصاً جبکہ ہم ایک ایسے زمانے میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں اکثر لوگ ہر نئی اور
Flag Counter