Maktaba Wahhabi

132 - 523
’’یا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جائو گے، حالانکہ ابھی تک تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، انھیں تنگدستی اور تکلیف پہنچی اور وہ سخت ہلائے گئے، یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے اللہ کی مدد کب ہوگی؟ سن لو بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔‘‘ قوت کا اظہار: مسلمانو! انسانی عظمت اور ایمانی قوت کا اظہار اس قدر فراخی کی حالت میں نہیں ہوتا جس قدر تنگی کے عالم میں ہوتا ہے، بڑے لوگ چیلنج کے وقت اپنی زمام کار اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ یاد رہے معاشرے کی سعادت اور خوشی کا راز اس کے مضبوط اور طاقتور افراد کے وجود میں مضمر ہے، اور اس کی بدبختی اور ذلالت اس وقت شروع ہوجاتی ہے جب اس میں کمزور اور ناتواں افراد کی کثرت ہو، جو نہ کسی ملک کی مدد کرسکتے ہیں کسی دشمن کو ڈرا سکتے ہیں، کسی تحریک میں جان ڈال سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے جھنڈے کو بلند کر سکتے ہیں۔ زمانے نے آج تک مسلمان کی طرح کا طاقتور، سخی اور فداکار نہیں دیکھا۔ مومن قوت سے ڈرتا ہے نہ کثرت تعداد سے خوف کھاتا ہے، وہ ایسی ایسی قربانیاں، فدائی اعمال اور سخاوت کے دریا بہاتا ہے کہ دشمن اس کی تصدیق نہیں کرسکتا۔ مسلمان بہادر ہوتا ہے: مسلمان کو اس کے حق سے نہ وعدے اور چکنی باتیں روک سکتی ہیں نہ دھمکیاں اس کی راہ کی رکاوٹ بن سکتی ہیں، نہ اس کو لالچ اس کے راستے سے ہٹا سکتی ہے اور نہ خواہش اور شہوت اس کو گمراہ کرسکتی ہے، وہ ہمیشہ خیر کی دعوت دینے والا، شر کا مقابلہ کرنے والا، نیکی کاحکم دینے والا، برائی سے منع کرنے والا، حق کی راہ دکھانے والا اور باطل کو رسوا کرنے والا ہوتا ہے۔ اگرچہ کوئی توپ اس کی تلوار کو توڑ بھی دے لیکن باطل اس کے حق کو کسی صورت نہیں توڑ سکتا، مومن طاقتور ہوتا ہے کیونکہ وہ عقیدہ توحید اور حق کی راہ پر گامزن ہوتا ہے، نہ وہ جاہلی عصبیت کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے نہ کسی پر ظلم کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ وہ اپنے ایمان کی وجہ سے مضبوط ہوتا ہے، اسلام کے مضبوط کڑے کو تھامے رکھتا ہے اور دین کے مضبوط قلعے میں پناہ گزین ہوتا ہے۔ اﷲ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں: { فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَا
Flag Counter