Maktaba Wahhabi

120 - 523
میں اضافہ فرماتے ہیں اور آخرت میں اسے اچھا ثواب اور بہترین بدلہ عطا فرمائیں گے۔ اور دوسرے فرشتے کی ’’نہ خرچ کرنے والے‘‘ کے لیے بد دعا کے نتیجے میں یا تو اس کا سارا مال ضائع ہوجاتا ہے یا پھر صاحب مال بذات خود نقصان سے دو چار ہوجاتا ہے۔ بہر حال اس سے یہ مراد ہے کہ آدمی برے اعمال میں مشغول رہ کر نیک اعمال سے محروم ہوجاتا ہے۔ صحیحین ہی میں حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أنفقي ولا تحصي فیحصي اللّٰه علیک، ولا توعي فیوعي اللّٰه علیک )) [1] ’’خرچ کر اور گنتی نہ کر، وگرنہ اﷲ تعالیٰ بھی تمھیں گن گن کر دے گا اور اسے بند کر کے نہ رکھ، وگرنہ اﷲ تعالیٰ بھی تجھ پر بند کر کے رکھ دے گا۔‘‘ اس حدیث میں حضرت اسما رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام سے منع فرمایا کہ وہ زائد از ضرورت مال کو خرچ نہ کرے اور ختم ہونے کے ڈر سے نیکی کے کاموں میں صرف نہ کرے، جس کا انجام یہ ہوسکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کا رزق ہی بند کر سکتا ہے اور خرچ کرنے کی برکت سے محروم کر سکتا ہے، اور یہ کس قدر برا اور بدنما انجام ہے؟ خرچ کرنے کے اصول: تاہم یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ یہ خرچ کرنا شریعت کریمہ کے پیش کیے ہوئے بہترین، مضبوط اور پائیدار طریقوں کے مطابق ہی ہونا چاہیے، یعنی میانہ روی اور اعتدال کی چال چلنا، جسے قرآن حکیم ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے: { وَ لَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا} [الإسراء: ۲۹] ’’اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا کر لے اور نہ اسے کھول دے، پورا کھول دینا، ورنہ ملامت کیا ہوا، تھکا ہارا ہو کر بیٹھ رہے گا۔‘‘ یہ فضول خرچی اور کنجوسی کی دو برائیوں کے درمیان رہنے والی نیکی ہے۔ یہ دونوں ہی مذموم ترین اور قبیح ترین خصلتیں ہیں اور ایک ہوشمند مسلمان کے لیے ان دونوں سے دور رہنا، ان کی راہ کا راہی
Flag Counter