Maktaba Wahhabi

88 - 523
جو برائیاں مٹا دیتی ہیں، نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے نصیحت ہیں۔ ہماری گفتگو کا عنوان ہے: نیک اعمال میں کوتاہی۔ میں ان میں سے خاص طور پر فضائلِ اعمال کا تذکرہ کروں گا۔ سامعین محترم! جب ہم فضائلِ اعمال اور فقہ اعمال کے متعلق گفتگو کرتے ہیں تو ذہن بڑے شوق سے اس طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ شائد بات لمبی ہو جائے اور دل اس کو مکمل سننے کے لیے بے چین ہو لیکن یہاں ہم خصوصاً اپنے اس منفی شعور اور غیر ذمہ دار احساس پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں جو فضائلِ اعمال کی حقیقی صورت کے متعلق ہے۔ خصوصاً وہ اعمال جو چھوٹے کاموں کے بدلے بڑی بڑی نیکیاں کمانے کا ذریعہ ہیں، جنہیں عموماً عام لوگ کرتے رہتے ہیں، البتہ جو ان کے اثرات سے بے خبر یا ان کے اجر سے ناواقف ہو تو وہ کم ہی انھیں ادا کرتا ہے جبکہ کچھ لوگ انھیں معمول کا کام سمجھ کر کرتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جو بالکل ان سے دور رہتے ہیں، اگر انھیں ان کے اجر کا علم ہوتا تو یہ اپنے آپ کو بے وقوف شمار کرتے۔ عمر کا حساب اور نیک اعمال کی ضرورت: اللہ کے بندو! انسان کی عمر خواہ کتنی لمبی ہو جائے وہ کم ہوتی جاتی ہے۔ اگر ہم ایک لمحے کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ذہن میں لائیں کہ ’’میری امت کی عمریں ۶۰ اور ۷۰ کے درمیان درمیان ہیں۔‘‘[1] جس کی عمر ۶۰ سال ہو چکی ہو اس کو تقسیم کریں تو حساب اس طرح بنے گا کہ اگر وہ روزانہ سات گھنٹے سوتا ہے تو حتمی بات ہے کہ عمر کا ایک تہائی حصہ تو نیند کی نذر ہو جاتا ہے۔ اگر تین وقت کا کھانا کھائے تو تقریباً دو سال کھانا کھانے میں صرف ہو جاتے ہیں، اور تقریبا ۱۵ سال بچپن کی نذر ہو جاتے ہیں جن میں انسان دینی پابندیوں سے آزاد ہوتا ہے۔اس طرح حقیقت میں اس کے پاس ۶۰ سال میں صرف ۲۳ برس بچتے ہیں، یہ تمام اعداد و شمار آدمی کو یہ حقیقت باور کرواتے ہیں کہ اسے ہر نیک عمل کی طرف سبقت کرنے کی کتنی شدید ضرورت ہے؟ نیک اعمال کی مثالیں: اے مسلمانو! صاحبِ عقل و دانش کے لیے مثالیں بیان کر دینا ہی کافی ہوتا ہے، اس لیے
Flag Counter