Maktaba Wahhabi

453 - 523
’’یہ دل میں خشوع رکھنے، مسلمان کے لیے نرمی کا پہلو رکھنے اور نماز میں دائیں بائیں حرکات نہ کرنے کا نام ہے۔‘‘[1] حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت: {الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلاَتِھِمْ خَاشِعُوْنَ} کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ (( خائفون ساکنون )) یعنی وہ خوفزدہ اور پر سکون رہتے ہیں۔ حضرت حسن رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’ان کے دل میں خشوع تھا تو اس کی وجہ سے ان کی نگاہیں جھکی رہیں اور ان کے پہلو نرم رہے۔‘‘[2] ابن سیرین کا قول ہے کہ ’’وہ اپنی نگاہیں اپنے سجدہ کرنے کی جگہ پر ٹکائے رکھتے تھے۔‘‘[3] مسلم بن یسار کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بصرہ کی مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے تو مسجد کی دیوار گر گئی، اہل بازار اس کی دھمک سن کر گھبرا اٹھے لیکن وہ بالکل متوجہ نہ ہوئے۔ جب انھیں بچ جانے پر مبارک بادیں دی گئیں تو انھوں نے تعجب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے تو اس کا احساس تک نہیں ہوا۔[4] سلف صالحین کا خشوع: اللہ اکبر! یہ ہے سلف صالحین رحمہم اللہ کا منہج اور طریقہ کار جن کے دل نماز میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونے کا رعب اور دہشت محسوس کرتے تھے، لہٰذا وہ پرسکون ہو جاتے، خشوع کے عالم میں چلے جاتے اور یہ خشوع دل سے ہوتا ہوا دیگر تمام اعضا، حرکات اور سکنات تک سرایت کر جاتا۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوتے تو ان کو اللہ تعالیٰ کا جلال اور اس کی عظمت ڈھانپ لیتی۔ جب وہ اللہ جبار کے ساتھ مناجات کی لذت کوشی میں مشغول ہوجاتے تو ہر قسم کی مشغولیات ان کے ذہن سے مٹ جاتیں، اس حالت میں ہر چیز جو ان کے ارد گرد ہوتی ان کے محسوسات سے دور ہو جاتی اس طرح ان کا وجدان ہر قسم کی گندگی سے پاک اور مطہر ہو جاتا، وہ ہر شبہے کو جھٹک دیتے، ایسی کیفیت میں تمام مادی امور کمزور ہو جاتے ہیں اور تمام دنیوی کام ایک ایک کر کے دور ہٹ جاتے ہیں تب کہیں جاکر نماز حقیقی دلی راحت، نفسیاتی سکون اور آنکھوں کی ٹھنڈک بنتی ہے۔ جس طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
Flag Counter