Maktaba Wahhabi

241 - 523
ان کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ انھیں دنیوی عیش و لذت اور شہوانی جذبات کی تسکین کے سوا اور کوئی فکر ہی نہیں رہ گئی، یہ جیسے بھی حاصل ہو اور جہاں سے بھی حاصل ہو اس کی انھیں کوئی پرواہ نہیں ہے، اگر ان کے سامنے دنیوی مال ومنال آجائے تو وہ اس پر اللہ کی رضا و خوشنودی اور اجر وثواب کو ترجیح نہیں دیتے، جن کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے: { یَعْلَمُوْنَ ظَاھِرًا مِّنَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ھُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ھُمْ غٰفِلُوْنَ} [الروم: ۷] ’’وہ تو ( صرف ) دنیوی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں اور آخرت سے تو بالکل بے خبر ہیں۔‘‘ لمحۂ فکریہ اور مقامِ عبرت: اللہ کے بندو! کیا تم قرآنی آیات میں مذکور آسمان سے برسنے والے تازیانوں سے عبرت حاصل نہیں کرتے ہو کہ پہلی امتوں کے ساتھ کیا کیا حالات پیش آئے؟ ان کے بارے میں بھی کبھی سوچا ہے؟ ہماری عبرت کے لیے یہی کیا کم ہے کہ ہم روزانہ اپنے ہاتھوں سے لوگوں کو آخرت کی منزل کی طرف روانہ کرتے ہیں، ان کی سواریاں ہم خود ان کی آخری منزل تک پہنچا کر آتے ہیں، جن میں کبھی کوئی اکیلا سفر پر نکلتا ہے، اور کبھی جماعتوں کی جماعتیں اور گروہوں کے گروہ رختِ سفر باندھ لیتے ہیں، کبھی باپ ہوتے ہیں تو کبھی مائیں، کبھی بیٹے جاتے ہیں اور کبھی بیٹیاں رخصت ہوتی ہیں، کسی دن کوئی شاہ جا رہا ہوتا ہے تو کبھی کسی گدا کی باری آجاتی ہے، کوئی غنی ہوتا ہے اور کوئی فقیر، مومن آخرت کی طرف روانہ ہوتے ہیں اور کافر بھی لوٹائے جاتے ہیں، نیکو کار رختِ سفر باندھتے ہیں اور بد کار بھی آگے دھکیلے جاتے ہیں، وہ قبروں کے حوالے کر دیے جاتے ہیں، اور پھر وہ اسرافیل کے صور پھونکنے کے انتظار میں پڑے رہتے ہیں اور پھر روزِ آخرت میں انھیں زندہ کیا جائے گا اور قبروں سے نکالا جائے گا، وہ ڈرے سہمے نگاہیں جھکائے انتہائی ذلت ناک حالت میں میدانِ محشر میں اس دن کے لیے جمع ہو جائیں گے جس دن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ اللہ کے بندو! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور وہ گھڑی اپنے ذہن میں رکھو جب اس دنیائے فانی سے رخصت ہو کر حیاتِ جاودانی کی طرف سفر اختیار کرنا ہے اور پھر وہاں یا تو جنت نشین ہوں گے یا
Flag Counter